سوا قومی نظریہ


جناح، نہرو اور گاندھی جیسے بڑے لوگوں کےنظریات، تجربات، مشاہدات اور دوراندیشی کی صفت نے انھیں جو کچھ دکھایا، انہوں نے اس کے مطابق اپنے اپنے حصے کی جدوجہد کی اور نتیجہ ہندوستان کے بٹوارے کی صورت میں نکلا۔ مذہب کی تیز آنچ پر پکنے والا دوقومی نظریہ علیحدگی کے چند سال بعد تک تو بہت خوشنما اور دلنشین دکھائی دیا پھر یحیی، بھٹو اور مجیب کی خواہشات نے انھیں جس راستہ پر چلایا انھوں نے اس سفر میں جی جان سے کوشش کی آخر اسلامی جمہوریہ پاکستان کواندرا گاندھی کے ہاتھوں عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کی پیدائش کا کرب برداشت کرنا پڑا ( بعض ستم ظریفوں کے خیال میں اپنے ہی ہاتھوں)۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ علیحدگی کے بعد نئی مملکت کا نام ” اسلامستان ” نہیں رکھا گیا۔ یوں دوقومی نظریے کی بنیاد یعنی مذہب کی بنا پر تقسیم کے دلائل کو پہلا دھچکا لگا۔

پھر یوں ہوا کہ مسلمانان پاکستان کو اپنے ہم وطنوں کو عزیز رکھنے والی خالص قیادت نصیب ہو گئی جو جذبہ ایمانی سے لبریز تھی لہذادوقومی نظریے کے تن بدن میں نئی جان پڑ گئی۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس طریقہ کار کی قیمت ہر گلی، کوچے، بازار، عبادت گاہ اور تعلیمی ادارے میں ادا کی جاتی رہی اور ادا کی جا رہی ہے۔

دوقومی نظریے میں پیش کیے جانے والے تمام تر وزنی اور مبنی بر حقیقت دلائل کے باوجود پاکستان اور ہندوستان کو نظریاتی بنیادپر علیحدہ کرنے والےاس کو ہ ہمالیہ کے اندر وقت کے ساتھ ساتھ ایسی سرنگیں بکثرت وجود میں آ گئیں ہیں جو اس کی نئی نسل کے ذہنوں میں سوالات کو جنم دے کر پاکستان کے مصائب میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔

تھوڑے مطا لعہ سے یہ جانچنازیادہ مشکل نہیں کہ تمام مذاہب کی بنیاد اچھائی پر رکھی گئی ہے۔ اصل مسئلہ ان مذاہب کے ماننے والوں کا عمل ہےجو کہ دنیا میں بالعموم اور ہندوپاک میں بالخصوص یکساں دکھائی دینے لگا ہےلہٰذا موجودہ حالات میں مذاہب کی تعلیمات میں تفریق مشکل ہو گئی ہے۔

مثلادونوں ممالک میں عورتوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہےوہاں چلتی بسوں میں عصمت دری کے واقعات ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایسے فعل کے بعد لڑکیوں کو درختوں سے لٹکا کرغالباً رسی کی مضبوطی کا اندازہ کیا جاتا ہےجبکہ وطن عزیز میں پسند کی شادی پر ناصرف زندہ جلایا جاتا ہے بلکہ سینہ بھی تانا جاتا ہے۔ دونوں دیشوں میں کم سن بچیاں ذہنی مریضوں کو بہت مر غوب ہیں( اور ایسے مریض کثرت سے پائے جاتے ہیں)۔

ہندوستان میں ذات پات اور مذہب آپ کو اچھوت بناتا ہےجبکہ پاکستان میں آپ کی برادری اور فرقہ۔ دونوں ملکوں میں اقلیتوں کو مارا جاتا ہے، توہین مذ ہب کے الزام لگتے ہیں اور زبردستی مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے۔ کرپشن، بیروزگاری، بھوک، اسلحہ اور فوج دونوں ممالک کا اثاثہ ہیں۔ کہنے کو تو یہ سب مسائل دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ہیں مگر کیا کیا جائے کہ ہم صرف بھارت سے اس بنا پر الگ ہوئے تھے کہ وہاں بحثیت مسلمان ہماری جان ومال، عزت، معیشت اور ثقافت محفوظ نہیں۔

ثقافت کا یہ حال کہ دونوں ممالک کی مقبول خوراک فاسٹ فوڈ، پسندیدہ پہناوا مغربی لباس، مرغوب زبان انگریزی ہے۔ پاکستان میں نئے سینما گھر ہندوستانی فلموں کے کامیاب کاروبار کی وجہ سے بن رہے ہیں۔ پاکستانی گھروں میں بکنے والی مصنوعات کی اٹھان ہندوستانی فنکاراوں کے پیچ وخم کی مرہون منت ہو چکی ہیں۔ پاکستانی جرنیل اور سیاستدان ہندوستانی فنکاروں اور گلوکاروں کو پسند کرنے میں محمود و ایاز کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ غرض زندگی کا کون سا شعبہ ان کےاور ہمارے یہاں مختلف نظر آتا ہے۔ کچھ فرق دیوتاوں کا ہے وہ جلد یہ بدیرہندوستانی کارٹون پورا کر دیں گے۔ یہاں دو قومی نظریہ مزید تھکاوٹ کا شکار ہو گیا ہے۔

دوقومی نظریے کے تناور درخت کو افغانستان اور ایران جیسے برادر اسلامی ممالک کے ساتھ داخلی اور خارجی اختلافات کی دیمک نے بھی کمزور کیاہےاور اس سوچ کو پروان چڑھنے میں مدد دی ہے کہ آزادانہ زندگی گزارنے میں مشکلات کی بنیادی وجہ صرف مذہبی شناخت ہی نہیں ہے۔ نظریات کو ہمیشہ جدید خیالات اور رجحانات کی ضرورت رہتی ہےوقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرانے نظریات کی دھار کند ہونے لگتی ہےاور آخر کاروہ فائدے کی بجائے نقصان دینے لگتے ہیں۔ اس سارے عمل میں ہم ٹیکنالوجی کے کردار کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔

دنیا میں لگ بھگ دو سو دس ممالک ہیں لیکن ہم اس قدر شاندار لوگ ہیں کہ باقی دو سو آٹھ ممالک کے لیے اپنی خارجہ پالیسی اپنے ازلی دشمن کو ذہن میں رکھ کر بناتے ہیں۔ جنگی ماحول کے باوجودہندوستان چین سے تجارت کر سکتا ہے، چین اور امریکہ چوہدراہٹ کی لڑائی میں بھی باہمی کاروبار بند نہیں کرتے، اختلافات کی طویل تاریخ کے باوجود یورپ منافقت کے ساتھ ہی سہی اکٹھے بیٹھ سکتا ہے مگر ہم آج بھی پوری دنیا کو مذہب کی عینک سے ہی دیکھنے پر مصر ہیں ( اور اب تو سعودی عرب بھی “کافر” ہوا جاتا ہے)۔

قیام پاکستان کے وقت کی صعوبتیں دیکھنے والی نسل اس دنیا سے رخصت ہو چکی۔ اس بات میں بھی کلام نہیں کہ دو قومی نظریہ پاکستان کی بنیاد ہے اور اس بات میں بھی بحث نہیں کہ ہمارے بزرگوں کی قربانیوں اور ان کے فلسفے کو یاد رکھا جائے۔ مگر کیا کیا جائے کے 70 سال میں دنیا بیحد بدل گئی ہے۔ اس دور کے طرز حکومت سے لے کر معلومات کے ذرائع تک ہر چیز ایک اور ہی عالم میں پہنچ گئی ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کی اکثریت اپنی پوری زندگی میں کسی ہندو سے ملاقات کی سعادت حاصل نہیں کر پاتی۔ لہذٰا انھیں حقیقی طور پر ہندوؤں سے کوئی براہ راست خطرہ نہیں ہے اور شاید وہ اس شدت سے اس جذبے کو سمجھ بھی نہیں سکتےجو دو قوموں میں فرق کے حوالے سے ہمارے بزرگوں کو محسوس ہوتا تھا۔ ایسے میں قوم کو متحد رکھنے کے لیے خوشحالی، ترقی اور دنیا میں نمایاں قوم بننے کے خواب دیکھانا ایک بہتر فیصلہ رہے گا۔

اب تک کے تجربات نے سکھایا ہے کہ مذ ہب کا ریاستی ہتھیار کے طورپر استعمال خطرناک نتائج کا حامل ہے۔ دوقومی نظریے کو مضبوط کرتے کرتے ہم مذہبی جنونیت کی شکار قوم بن گئے ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اگر ریاست کٹر مذہبی شناخت سے پیچھے ہٹتی ہے تو پاکستان کو وجود میں لانے والے دلائل کمزور ہو جائیں گے۔ پرانی ڈگر پر چلتے رہنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دوقومی نظریہ مذہبی جماعتوں، آئی ایس پی آرکےمیڈیائی استعمال اور نصابی کتب کے ذریعے ہی اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ ریاستی سطح پر پاکستان کی ترقی اور مضبوطی کی عملی کوشش دوقومی نظریے کی کمزوری سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی اچھی حکمت عملی ہو سکتی ہے، بجائے اس خلا کو مزید مذہبی جنونیت سے بھرنے کی کوشش میں اپنا وقت اور وسائل ضائع کرنے کے۔ کیونکہ سیر پر سواسیر تو ہے مگر کب تک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).