کون سی عورت می ٹو نہیں؟


بہت ساری خواتین اور مردوں کو یقین ہے کہ عورت کو اس کی مرضی کے بغیر جنسی طور پر عدم تحفظ کا شکار نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عورت کی مرضی شامل نہ ہو تو اس کا ریپ ممکن نہیں۔ جب میشا شفیع نے کہا کہ علی ظفر نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا ہے تو خواتین اور مرد کالم نگاروں کی ایک بڑی تعداد علی ظفر کے حق میں وہ تاویلیں لے کر آئی کہ اس کا وکیل بھی نہ لا سکے۔ میشا شفیع کے مختصر سے بیان کا ایک ہی کالم میں لفظ بہ لفظ تجزیہ کر کے فیصلہ اس کے منہ پر ایسے مارا کہ شرلاک ہو مز بھی شرما جائے۔

موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ خواتین لکھاریوں نے ”ایسی“ اور ”ویسی“ خواتین کے کردار، جسامت، لباس، خوراک، خریداری یا اندازہ گفتگو کو جی بھر کر لتاڑا، مردوں کی مظلومیت کی مثالیں پیش کیں اور آخر میں اس معاملے کو ”می ٹو“ مہم کے ہمارے پاک معاشرے پر گندے اثرات کی ایک مثال قرار دے دیا۔

ایسی سوچ کی حامل خواتین پر کوئی حیرت نہیں۔ ہمارے ہاں عورت کے ہر انداز کا باریک بینی سے تنقیدی جائزہ لینا عام بھی اور ہر کوئی اسے اپنا حق اور فرض دونوں ہی سمجھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس رحجان سے خواتین کی اپنے بارے میں ایک مخصوص رائے بھی پروان چڑھی ہے جس میں سب سے زیاد ہ افسوسناک ان کا اپنے آپ پر شک کرنا ہے۔ اپنی رائے پر شک کرنا، اپنی صلاحیتوں پر شک کرنا، اپنی جسمانی خوبصورتی پر شک کرنا، اپنی عقل و فہم اور قوت فیصلہ پر شک کرنازیادہ تر خواتین کو اس نہج پر لے آتا ہے وہ بحیثیت مجموعی تمام خواتین کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتی ہیں۔ وقت پڑنے پر زیادہ تر خواتین اپنی ہم جنسوں کی بات پر یقین کرنا دور کی بات وہ ان کے سامنے تلوار اور مردوں کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔

مرد کی طرح عورت میں بھی جرم کرنے کا رحجان اور صلاحیت ہوسکتی ہے۔ جیلوں میں بند تمام خواتین بے قصور نہیں اور نہ ہی تمام مرد گناہگار۔ انفرادی طور پر دونوں ہی ہر قسم کے جرائم کا حصہ بن سکتے ہیں لیکن جنسی طور پر ہراساں کرنے کا معاملہ مختلف ہے۔ کسی بھی عورت کو کہیں بھی ہراساں کیا جا سکتا ہے اور اس کا ڈر صرف کام کرنے والی خواتین میں نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کو ہے۔

پاکستانی عورت اجنبی مردوں سے ڈر کر رہتی ہے، اسے باہر نکلنے کے لیے خاص اوقات، راستوں اور سواری کا بندوبست کرنا پڑتا۔ یا اس کے خاندان کو ایسا کرنا پڑتا ہے۔ والد صاحب بچی کو تنہا کالج نہیں جانے دیتے، بھائی تفریحی مقامات پر بھیجنے سے کتراتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ جانتے ہیں کے ایسے مقامات پر وہ خود اور ان کے دوست کیا کرتے ہیں۔

اگر کوئی لڑکی یونیورسٹی کے ایک ڈییپارٹمنٹ سے دوسرے تک پیدل جارہی ہو، سڑک سنسان ہوتو وہ ڈر سی جائے گی، اگر یونیورسٹی میں دیر ہو جائے اور آس پاس سیکورٹی گارڈز کے علاوہ کوئی نہ ہو تو وہ گارڈ سےبھی ڈر جائے گی، اندھیرے میں باہر نکلے اور پیچھے چند نیک مرد چل رہے ہوں تو وہ تب بھی ڈر جائے گی، اکیلے ٹیکسی میں بیٹھے تو ڈرائیور سے ڈر جائے گی، مرد ڈاکٹر سے چیک اپ کروائے تو اسٹیتھسکوپ سے ڈر جائے گی۔

اس کا حل معاشرے نے یہ نکالا ہے کہ عورت کی تربیت ایسے کی جائے کہ مخصوص مقامات اور اوقات کے علاوہ، اور کسی اپنے کے بغیر وہ کہیں نہ جائے۔ یہ درست ہے کہ اپنی حفاظت کی لیے ضروری بندوبست کرنا چاہیں اور ایسے لوگوں اور مقامات سے دور رہنا چاہیے جہاں آپ کو خطرہ ہو لیکن یہ طے کرنا بھی ضروری ہے کہ خطرہ ہے کیا اور کس سے ہے۔ ۔ عورت کو خطرہ جنگلی جانورں سے نہیں اور نہ ہی اسے اپنے پرس کے چھن جانے کا ڈر ہے یا جان جانے کا۔ اسے ڈر مردوں سے ہے اور یہ ڈر جنسی زیادتی کا ہے۔ یہ ڈر صرف عورت کو ہی نہیں بلکہ اس کا خاندان بھی اسی بات سے ڈر کر اسے اکیلے باہر نہیں نکلنے دیتا۔

چونکہ ہم نے طے کر لیا ہے کہ جس جگہ اور جن اوقات میں جنسی ہراسانی کا زیادہ خطرہ ہے وہاں مت جاؤ اور خود کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری خود ہی اٹھاؤ، اگر عورت کسی شناسا شخص پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگائے تو وہی موردالزام ٹھہرائی جاتی ہے۔ اپنے آپ پر شک کرنا ایسی بیماری ہے کہ اس کا شکار خواتین ایسی لکھاری بھی دفاع مرد کی ذمہ داری سنبھال لیتی ہیں جو دونوں کو نہیں جانتیں۔ ایسا نہیں کہ ہر عورت کی جانب سے لگایا جانے ہر الزام ہی سچا ہوتا ہے لیکن معاملے کی تہہ تک پہنچے بغیر عورت کی بات پر شک کرنا اور مرد کے حق میں تاویلیں گھڑنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ نے اپنا فیصلہ سنا دیا جس کی بنیاد آپ کی اس جنس سے ناپسندیدگی اور اس پر شک کے سوا کچھ نہیں۔

جنسی ہراسانی کے معاملے میں عورت کے سچا ہونے کے اتنے ہی امکانات ہے جتنے مرد کے جھوٹے ہونے کے تو شک مرد پر کیوں نہیں؟ اگر عورت کو اپنی حفاظت خود کرنی چاہیے اور خطرے کی جگہ سے دور رہنا چاہیے تو خطرے اور اس کے ذریعے کا نام لینے میں کیا مضائقہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).