آخری لفظ کے بے کار ہونے تک لکھتے رہو!


کبھی کبھی یوں لگتا ہے

جیسے دکھ کے مقابلے میں

خوشی ناقابلِ حصول ہے

یہ سچ ہے کہ چاند اور ستارے اب روشنی کی امید نہیں،

بلکہ شب کی علامتیں ہیں

جو کثرتِ استعمال سے کلیشے ہو چکی ہیں

وقت کے تاریک سمندر میں

سورج کے ابھرنے اور ڈوبنے سے بھی اب کوئی فرق نہیں پڑتا

لیکن آخری حرف کے طلوع ہونے کا انتطار تو کیا جا سکتا ہے

زمین کائنات کا قبائلی علاقہ ہے،

ازلی گنہ گاروں کی آماجگاہ

جہاں جنت سے نکالے گئے مرد و زن رہتے ہیں

یہ ابھی آسمان کے مقابلے میں بہت پس ماندہ ہے

یہاں ہم اپنی مرضی سے

جینے یا مرنے کے حق میں ووٹ نہیں دے سکتے

کتنی عجیب بات ہے

کہ زیادہ تر نظمیں اور کہانیاں

دلوں اور سرحدوں کے آس پاس

کسی قومیت کے بغیر جنم لیتی ہیں

اور سرحدیں پار کرتے ہوئے

غیر قانونی داخلے یا جاسوسی کے الزام میں دھر لی جاتی ہیں

ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لیے

بارش اور ہوا کو بھی ویزے سے استثنا حاصل نہیں

جنگل کے پھول بھی

پرمٹ کے بغیر اپنی خوشبو برآمد نہیں کر سکتے

پہاڑوں کی چوٹیاں

آمنے سامنے ہونے کے باوجود

ایک دوسری سے گلے نہیں مِل سکتیں

سرحدوں کے طرفین

اجازت ناموں کے لیے

بادل لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں

یہاں تک کہ پسینے میں شرابور ہو جاتے ہیں

کسی دُور کے ستارے پر رہنے والوں کے لیے

یہ دنیا پیدا بھی نہیں ہوئی ہو گی

لیکن ہم اسے تباہ ہوتے ہوئے بے بسی سے دیکھ رہے ہیں

اور لکھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے

سچ ہے کہ شاعری دنیا کا نظام نہیں بدل سکتی

وہ تو داس کیپیٹل بھی نہیں بدل سکی

کیونکہ مارکس بھی

شاعری کے راستے سے اشتراکیت میں داخل ہوا تھا

تو پھر یہ کیا ہے جو باہم دگر ملا ہوا ہے؟

یہ کیسی جنگ ہے؟

بم کہیں اور گرتے ہیں

اور دھمک ہمارے دلوں تک آتی ہے

دیواریں کہیں اور ہلتی ہیں

اور شیشے ہماری کھڑکیوں کے ٹوٹتے ہیں

کہیں دُور کسی قلم سے خون رستا ہے

اور یہاں ہماری نظمیں رونے لگتی ہیں

تاریخ کے راستوں پر پسپا ہوتے ہوئے

کتابوں کی جلی ہوئی لاشوں کے پاس

جھلسے ہوئے متن کے گھمسان میں

زندگی کو افسردہ دیکھ کر

ہم اس کو دلاسا دینے بھی نہیں رک سکتے

پتا نہیں وہ کس لفظ کی محبوبہ تھی

جو راکھ اور دھویں کی لامختتم ضخامت میں

جانے کون سا معنی، کون سا تناظر ڈھونڈ رہی تھی

آہوں، کراہوں اور سسکیوں کے انبار میں

نظموں کے پیکر اور کہانیوں کے کردار کہیں نیچے دب جاتے ہیں

مسودوں اور عبارتوں کے جنک یارڈ میں

پھٹے پرانے کاغذوں

اور سیل میں خریدے ہوئے کپڑوں اور جوتوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا

خلیہ در خلیہ ڈھیر ہوتی ہوئی شاعری

وقت کا نامیاتی سلسلہ ہے

اے دنیا بھر کے شاعرو!

آخری لفظ کے بے کار ہونے تک لکھتے رہو

یہاں تک کہ سیاہی کا سارا محلول ختم ہو جائے

شاید روشنی ہمارے ضیا ترس پہاڑ جیسے جسموں

اور جنگل جیسی گنجان روحوں کے آر پار جانے لگے!!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).