پاکستان کو فلاحی ریاست کیسے بنایا جا سکتا ہے؟


ہمارے ہاں ورکنگ کلاس کی حالت زار کا رونا تو بہت رویا جاتا ہے۔ سکینڈے نیویا کے ممالک جیسی فلاحی ریاستوں کی مثالیں ہر دوسرے ٹاک شو اور سیاسی جلسوں میں دی جاتی ہیں۔ معاشی مشکلات سے دوچار لوگوں سے ہمدردی اور ذاتی حیثیت میں ان کی مالی مدد کی تلقین کا بھی شور رہتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مختلف معاشی نظاموں کی تاریخ، آج کی فلاحی ریاستوں کے ماڈلز اور اپنے معروضی حالات کو مد نظر رکھ کر کوئی ایسا achievable پروگرام کسی سیاسی، مذہبی یا سماجی تنظیم کی جانب سے سامنے نہیں آتا جس پر درجہ بدرجہ عمل پیرا ہو کر ہم آنے والے سالوں میں ملک میں بسنے والے تمام لوگوں تک مجموعی طور پر خوراک، رہائش، صحت، تعلیم، انصاف، شخصی آزادیاں اور تفریح جیسے مواقعوں کی یکساں فراہمی یقینی بنا سکیں۔

دنیا میں کامیاب مثالیں موجود ہیں جہاں بغیر کسی خونی انقلاب کے درست سمت کا تعین اور اس جانب سفر کر کے عوامی فلاح اور سماجی انصاف کی منزلیں حاصل کی گئی ہیں۔ پہلی بات جو ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہماری بحثوں اور سیاسی ایجنڈوں میں ملک کی مجموعی آمدن اور معیشت کی بہتری کے ساتھ ساتھ اس کا فائدہ عام لوگوں تک پہنچانا بھی شامل ہونا چاہیے۔

فلاحی ریاستوں کی صرف مثالیں دینے کے علاوہ وہاں کے معاشی اور سیاسی ماڈلز پر بھی بات ہونی چاہیے۔ لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہاں پرسنل انکم ٹیکس ریٹ کم وبیش 50 فیصد ہے جبکہ ہمارے ہاں تقریبا 20 فیصد اور ہماری tax to GDP ratio دنیا کے ممالک کے مقابلے میں کم ترین سطح پر ہے۔ وہاں جاگیر دارانہ نظام کا خاتمہ ہو چکا ہے جبکہ ہمارے ہاں لینڈ ریفارمز تو دور جاگیرداروں کی کروڑوں روپے کی زرعی آمدن پر سرے سے ٹیکس ہی نہیں۔ ہم ورکروں کو بارگینگ حقوق دینے میں انتہائی غیر سنجیدہ ہیں۔ وہاں union density تقریبا 75 فیصد ہے اور ہمارے ہاں بمشکل 3 فیصد۔ ہمارے بجٹ میں کتنا حصہ فلاحی کاموں کے لیے مختص ہوتا ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں اس پر بھی دیگر ممالک بالخصوص فلاحی ریاستوں (Nordic model) کو سامنے رکھ کر بحث ہونی چاہیے۔ اس پر بھی غور ہونا چاہیے کہ ایسے تمام ممالک جن کی ہم مثالیں دیتے ہیں وہاں کامیاب پارلیمانی جمہوریت ہے جبکہ ہمارے ہاں جمہوریت اور پارلیمان کو بدنام کرنے اور لوگوں کو اس نظام سے متنفر کرنے کی کوششیں ہر وقت جاری رہتی ہیں۔

ایلزبتھ وارن (Elizabeth Warren) امریکہ میں ڈیموکریٹ خاتون سینیٹر ہیں۔ شروع میں ہیلری کلنٹن کے ساتھ ان کا نام بھی بطور صدارتی امیدوار سامنے آیا تھا۔ وہ امریکی سینیٹ کی دیگر کمیٹیوں کے ساتھ ساتھ لیبر اور پینشن وغیرہ کے معاملات کے لیے قائم کمیٹی میں بھی شامل ہیں۔ انھوں نے حالیہ سالوں میں مالی کرائسس کے بعد امریکہ میں مضبوط مڈل کلاس کو دوبارہ سے استوار کرنے کے لیے آٹھ نکات پر مشتمل ایک پروگرام دیا تھا۔ میرے خیال میں اس پروگرام کے نکات سے کافی حد تک پاکستان میں بھی استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے یا کم از کم بحث کے لیے تو استعمال کیا ہی جا سکتا ہیں۔

وہ آٹھ نکات یہ ہیں

1 کم از کم تنخواہ میں اضافہ تاکہ کوئی شخص پورا وقت کام کرنے کے باوجود غریب نہ رہے
2 ورکرز کے مل کر سودا بازی کرنے کے حق کی حمایت

3 لیبر لاز کا نفاذ تاکہ ورکرز اوور ٹائم کا معاوضہ اور پینشن پا سکیں
4 ایک جیسے کام کی یکساں تنخواہ
5 سوشل سیکیورٹی، ریاست کی طرف سے صحت اور پینشن۔

6 سڑکوں، پلوں، توانائی، تعلیم و تحقیق میں سرمایہ کاری جس سے کم مدت میں اچھی ملازمتیں پیدا ہوں گی اور طویل مدت میں مزید مواقع ملیں گے۔
7 تمام بڑی امریکی کمپنیوں کا ٹیکس کی ادائیگی میں جائز حصہ یقینی بنانا تاکہ سب کے لئے مستقبل اچھا بنایا جا سکے۔
8 ایسی تجارتی پالیسیاں اور ٹیکس قوانین بنانا جو امریکی معیشت کو توانا کریں اور معیار زندگی کو بہتر بنائیں اور نئی ملازمتیں پیدا کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).