یوم مئی پر ایک مزدور استانی کا قہقہہ


کوئی دو ماہ قبل میں سکول کی سیڑھیوں سے گر گئی تھی پاؤں میں موچ آگئی تھی۔ گھر جانے کے لئے سکول کی تو کوئی سواری موجود نہ تھی نہ ہی گھر پر کوئی تھا جو مجھے ہسپتال لے جاتا سو خود ہی 1122 کو بلایا اور اپنی مدد آپ کے تحت ہسپتال پہنچی۔ ایک کولیگ نے ساتھ چلنے کی پیشکش کی مگر کام کام کام کے تحت اس کو روک لیا گیا۔ سکول والے ویسے ہر چھوٹی بڑی بات کے لئے وقت بے وقت ٹیچر کو روک لیتے ہیں۔ چار بھی بج جاتے ہیں فنکشن کے دنوں میں گھر آتے مگر وہیں ٹیچر اگر سکول میں ہی حادثے کا شکار ہو جائے تو کوئی اسے ایک فون تک کرکے نہیں پوچھتا کہ ہوا کیا؟ ہاں البتہ کسی بچے کے گھر سے کوئی بعد از سکول آکر کر کوئی سوال جواب کرے تو قبر میں سے بھی استانی یا استاد کو نکال کر رابطہ کر لیتے ہیں۔

خیر میں اگلے روز پرنسپل صاحبہ کے حضور پیش ہو کر چھٹی کی درخواست کی، نامنظور ہوگئی۔ فرمایاآپ استعفیٰ کیوں نہیں دے دیتی اگر کام کرنے سے قاصر ہیں تو۔ کام کرنے سے اس وقت واقعی قاصر تھی مگر دوسری نوکری حاصل کرنے کی سوچ ہی ہلا دیتی تھی کہ ملے نہ ملے۔ سو پٹی باندھ کر کام کرتی رہی۔ سکول میں سپورٹس ڈے قریب تھا۔ بچوں کو بھنگڑا کی تربیت دینی تھی۔ انہیں ناچ ناچ کر سکھاتی رہی۔ پاؤں کی موچ میں اتنی تکلیف تھی بھی نہیں جو بھوک کی تکلیف سے بڑھ کر ہوتی۔ بالکل آخر پاؤں کی موچ ٹھیک ہو گئی۔

اِس جمعرات کو مجھے ایک عزیزہ کی مرگ پر جانا پڑ گیا تھا۔ عزیزہ کی وفات چند روز پہلے ہوئی تھی مگر منگل کو سکول میں ہی تقریری مقابلہ تھا جس کے بارے میں عین سوموار کو معلوم ہوا کہ جمعرات تک جا پڑا۔ پرنسپل صاحبہ سے چھٹی پہلے ہی منظور کروا چکی تھی جمعرات کی۔ اُن سے بات کی تو فرمایا کہ جمعہ کو چلی جائیں۔ جہاں اتنے دن ہو گئے ہیں وہاں دو دن اور سہی۔ مجبوری تھی۔ سو میں رک گئی، جمعہ کی چھٹی کا پروانہ میرے پاس تھا۔ بروز جمعہ میں نے خانیوال کا سفر اختیار کیا۔ سفر کے دوران مجھے بس میں محسوس ہوا میری گردن اکڑتی جا رہی تھی۔

واپسی تک تکلیف برداشت سے باہر ہو چکی تھی ڈاکٹر کے پاس گئی ایکسرے فیس دوائی ملا کر 3000/۔ کا نسخہ بنا۔ درد کی وجہ سے جو ڈاکٹر نے معائنہ اور حقیقت کے بعد تشخیص کی وہ سیڑھیوں سے گرنا تھی۔ مہروں میں چوٹ آئی تھی۔ جو اب بڑھ چکی تھی۔ آرام نہ کرنے کی وجہ سے۔ آرام اور ایک پاکستانی مزدور؟ اچھا مذاق ہے۔ آج میں ڈاکٹر کا نسخہ اور آرام کا تجویز کا ڈاکٹری سرٹیفکیٹ لے کر پھر پرنسپل کے دفتر میں بیٹھی تھی۔ میڈم نے کہا کہ ہلکے پھلکے سے کام سے اورآرام آرام سے چلنے سے یہ پرابلم نہیں بگڑنے کی اور یہ جو ڈاکٹر ہے اس کے ہسپتال کی مہر بھی نہیں لگی ہوئی۔ سفارشی چھٹی لینا معلوم پڑتی ہے۔ سو بار بتایا کہ میڈم آپ کالر لگا دیکھ رہی ہیں۔ ڈاکٹر کو کال کر لیں۔ مگر وہ نہ مانیں۔ بچوں کے امتحان سر پر ہیں۔ آپ کیسے چھٹی لے سکتی ہیں ایک ہفتے کی۔ یا تو آپ ریزائن دے دیں تاکہ ہم کوئی اور ٹیچر رکھ لیں یا آپ آتی رہیں۔ میرے لئے نوکری چھوڑنا تقریباً ناممکن ہے۔ سو میں حاضری لگانے چلی گئی اور چھٹی کا خیال دل سے نکال دیا۔

جیسے ہی میں نے رجسٹر کھولا میرے نام کے آگے 7چھٹیاں مینشن کی ہوئی تھیں۔ پرائیویٹ سکولوں میں مہینے کی آخری تاریخ کو چھٹیوں اور تنخواہ کا حساب ہوتا ہے۔ میں نے حیران ہو کر ایڈمن سے پوچھا کہ یہ 7چھٹیاں کیوں تو جواب ملا کہ مِس آپ نے اس جمعہ کی چھٹی کی تھی اور پچھلے سوموار آپ لیٹ آئی تھیں۔ جمعہ یا سوموار کو ایسی کوتاہی پر 1دن کی چھٹی کی جگہ تین گنا تصور کی جاتی ہے اس کو سینڈوچ کہا جاتا ہے میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ 11000 تنخواہ پانے والی ایک استاد سکول کی لاپرواہی کی وجہ سے 3000 صحت کی مد میں خرچ کر چکی ہے اور 7 دن کی تنخواہ بھی کٹ چکی ہے بہت قائل کرنے کی کوشش کی کہ جمعہ کو سکول کی مجبوری تھی نہ کہ میری جو میں نے چھٹی کی مگر صاحب مان کر کون دے۔ چپ ہونا ہی پڑا۔

میڈم جی نے ابھی مجھے مستقل کرنا ہے اور پھر تنخواہ بڑھے گی۔ ابھی ٹرینی کے طور پر کام کر رہی ہوں نا۔ تین ماہ کا ٹرینی پیریڈہوتا ہے۔ جو کہ آٹھ ماہ کے بعد بھی ختم نہیں ہوا۔ ابھی ستمبر میں ختم ہو گا۔ پانی کا گلاس پی کر سٹاف روم میں آگئی۔ بچوں کو پڑھانے کے دوران دوائی کی وجہ سے نیند آ رہی تھی سربھی چکرا رہا تھا۔ درد کی وجہ سے بولنا بھی دشوار تھا مگر تعلیم دینا کارِثواب ہے اور میں مستقبل کے معماروں کی معلمہ ہوں۔ میرا مقام اِن تکالیف سے بہرطور کہیں اہم ہے۔ مجھے یہ مان ہے کہ میں اچھے انسان اور اچھے پاکستانی بنانے میں معاونت کر رہی ہوں۔ میں تو جہل سے لڑ رہی ہوں۔ غازی ہوں۔ اپنی ہمت اور عزم کو جلا بخشتے ہوئے میں درد اور تکلیف، مالی پریشانی سب بھلا کر بریک میں چائے پی رہی تھی کہ میرے مان سمان میں اضافہ کر دیا گیا۔

پرنسپل صاحبہ نے یکم مئی کی چھٹی کی نوید سناتے ہوئے کہا کہ یومِ مئی ہم سب کا دن ہے۔ ہم سب مزدوروں کا۔ ان کے حقوق کیسے پورا کیے جاسکتے ہیں اور انہیں کیسے ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ اس بارے ٹیچر صائمہ کی رہنمائی میں پرسوں ایک تقریب منعقد ہو گی جس میں ہم طلباء کو بتائیں گے کہ مزدور کے کیا حقوق ہیں؟ انہیں کیسے پامال کیا جا رہا ہے؟ اور اس کا حل کیاہے؟ کم اجرت پر مزدور کا استحصال، ا ُس کی صحت اور خوراک بارے خاص مضمون تیار کیجئے گا! ٹیچر صائمہ۔
اور ٹیچر صائمہ کا ایک فلک شگاف قہقہہ تھا نہ جانے خود پر پرنسپل کے بھول پن پر یا سسٹم پر کچھ معلوم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).