زرداری کا ہنگ پارلیمان کا دعویٰ


آصف علی زرداری سے سو اختلاف رکھنے کے باوجود آپ کو یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ موصوف اقتدار کے کھیل کو خوب سمجھتے ہیں۔ ذاتی طورپر مجھے اس ضمن میں ان کی مہارت کو 2008 کے انتخابات کے بعد بہت قریب سے دیکھنے کو ملا۔ اخبار نویسوں کی اکثریت نے ان دنوں یہ بات طے کر رکھی تھی کہ وزارتِ عظمیٰ کے لئے ان کا انتخاب مرحوم امین فہیم ہوں گے۔ میں جبلی طورپر اس سوچ سے اتفاق نہیں کرتا تھا۔ مخدوم صاحب اکثر Solo ہو جایا کرتے تھے اور ان کے اس روئیے سے اکثر محترمہ بے نظیر بھٹو بھی نالاں رہتی تھیں۔ مرحوم جام صادق علی کے دور میں بہت دُکھ سے اکثر یاد دلاتیں کہ موصوف وڈیرہ گرڈ کی بنیاد پر اس وزیر اعلیٰ کے گھر تقریباً ہر شام رات گئے تک چلتی محفلوں میں موجود ہوتے تھے جس نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے عام کارکنوں کا جینا حرام کررکھا تھا۔ ان میں سے کئی ایک پر دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات بھی بنائے گئے تھے۔ چند وڈیروں کو بھی اخلاقی اعتبار سے بہت سنگین الزامات لگاکر بلیک میل کیا گیا۔ جام صادق کے ”طریقہ واردات“ سے یاد آیا کہ ایک روز مرحوم پیرپگاڑا سے میں نے تنہائی میں بہت سنجیدگی سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ ہزاروں حروں کے پیر ہوتے ہوئے بھی اکثر جام صاحب کی مصاحبت میں کیوں نظر آتے ہیں۔ میری خوش قسمتی کہ پیر صاحب اس وقت پھکڑپن کے موڈ میں نہیں تھے۔ بہت سنجیدگی سے بتادیا کہ ”بابا یہ بہت خطرناک آدمی ہے۔ اپنی پولیس کے ہاتھوں میرے خلاف کوئی ایسا پرچہ درج کروادے گا جس میں لگائے الزام کی وجہ سے میں منہ چھپاتا پھروں گا۔ اس سے بنائے رکھنے ہی میں عافیت ہے“۔ بہرحال امین فہیم کے بجائے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم نامزد  کردیا گیا اور اس نامزدگی نے مجھے ہرگز حیران نہیں کیا۔

اصل حیرانی جنرل مشرف کے حوالے سے شروع ہوئی۔ پاکستانی سیاست کا حتمی ماہر سمجھا ایک برطانوی سفارت کار ”مارک لائل گرانٹ، جو لائل پور کے بانی شمار ہوتے شخص کا پوتا تھا جب 2006کے وسط میں NROکا تانا بننے پاکستان آیا تو مجھے خبر ہوگئی۔اس سے ایک ملاقات نے بہت کچھ سمجھادیا۔ بات عیاں ہوگئی کہ ا مریکہ اور اس کے حواری Populistبے نظیر بھٹو کو جنرل مشرف کے ساتھ بطور وزیراعظم کام کرتے دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی مسلط کردہ War on Terror کو بھرپور عوامی حمایت مل جائے۔ اس NRO کے پس منظر کو بخوبی جانتے ہوئے مجھے یقین تھا کہ یوسف رضا گیلانی کو جنرل مشرف کے ساتھ مل کر چلنا ہوگا۔ سینیٹر انور بیگ کے ہاں مگر ایک کھانا تھا۔ وہاں ان دنوں کی امریکی سفیر این پیٹرسن بھی موجود تھی۔ میری اس سے فقط دُعا سلام تھی۔ اس کے پاس جانے سے لہذا گریز کیا۔ چند اور مہمانوں سے گپ شپ لگاتا رہا۔ چند لمحوں بعد مگر ہماری ایک بہت ہی معتبر کالم نگار دوست انجم نیاز میرے پاس آئیں اور بتایا کہ مادام ایمبیسڈر مجھ سے کوئی اہم بات کرنا چاہتی ہے۔ میں اس کے پاس گیا تو وہ مجھے لے کر لان میں چلی گئیں۔اس لان کے ایک خاموش گوشے میں سفیر نے کہا کہ اسے لوگوں نے بتایا ہے کہ میں آصف علی زرداری کے بہت قریب ہوں۔ وہ مجھے دل کی بات بھی بتادیتے ہیں۔ دیانت دارانہ عاجزی سے میں نے سفیر کو بتایا کہ سیاست دان اور سفارتکار کسی صحافی کے دوست ہوہی نہیں سکتے۔ آصف علی زرداری خبر کے علاوہ کئی حوالوں سے البتہ مجھ پر کافی مہربان ہیں مگر امریکی سفیر کو میرے اس تعلق کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔

میری طنزیہ گفتگو کو اس جہاں دیدہ سفارت کار نے نظرانداز کیا اور صاف لفظوں میں پوچھا کہ کیا آصف علی زرداری جنرل مشرف کو ہٹا کر خود اس ملک کا صدر ہونا چاہ رہے ہیں۔ ایمان داری کی بات ہے کہ اس کے سوال نے مجھے چونکا دیا۔ میری اس سفیر سے بات چیت سے صرف ایک رات قبل ہی آصف علی زرداری سے تنہائی میں رات گئے تک ایک لمبی ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں وہ کہتے رہے کہ ”میرے وزیر“ جنرل مشرف کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں۔ وہ اسے ہٹانا چاہتے ہیں۔فوج اور امریکہ مگر اسکا ہٹایا جانا پسند نہیں کریں گے۔ میں نے اس تجزیے سے فی الفور اتفاق کیا۔ میرے اتفاق سے موصوف بہت لطف اندوزہوئے۔ بے تکلفی سے کہا کہ ”تم فقط ایک دانشور ہو۔ حالات کا تجزیہ اچھا کر لیتے ہو۔ انہیں بدلنے کے لئے جو جرات درکار ہے وہ تم میں موجود نہیں۔ صرف سیاست دان ہی ناممکن دِکھنے والی بات کو ممکن بنایا کرتے ہیں“۔ یہ بات کہنے کے بعد وہ کرید کرید کر مجھ سے یہ جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ نواز شریف جنرل مشرف کو ہٹانے کے لئے ان کا ساتھ دیں گے یا نہیں۔ میرا تجزیہ تھا کہ نواز شریف بھولتے نہیں ہیں۔ جنرل مشرف کو ہٹانے کی کوئی مناسب گیم نظر آئی تو اسے کامیاب بنانے میں بھرپور ساتھ دیں گے۔ اس ملاقات کے بعد صبح دیر سے اُٹھنے کے چند ہی لمحوں بعد خبر ملی کہ نوازشریف اور پیپلز پارٹی باہم مل کر جنرل مشرف کے خلاف مواخذے کی تحریک پارلیمان میں پیش کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ بالآخراس تحریک کے بغیر ہی جنرل مشرف نے استعفیٰ دے دیا۔اس ضمن میں مزید تفصیلات کا بھی مجھے علم ہے مگر اس کالم میں ذکر میں آصف علی زرداری کے اس دعویٰ کا کرنا چاہ رہا تھا جو موصوف نے سلیم صافی کے ساتھ اپنے حالیہ انٹرویو میں کیا ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ آئندہ انتخابات میں کوئی ایک جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کرپائے گی۔ پارلیمان گویا Hungہوگی اور ایسی پارلیمان کے ذریعے حکومت بنانے میں ”آزاد“ اراکین اہم ترین کردار ادا کریں گے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ آئندہ انتخابات میں ”آزاد“ امیدوار بے تحاشہ تعداد میں کامیاب ہوں گے۔ذاتی طورپر چند ٹھوس حوالوں اور قیافہ شناسی کے ملاپ سے میں خود بھی ایک Hungپارلیمان کی توقع کررہا تھا۔ ”آزاد“ امیدواروں کی ایک بہت بڑی تعداد میں کامیابی کے روشن امکانات بھی دِکھ رہے ہیں۔ چودھری نثار علی خان ”آزاد“ لوگوں میں نمایاں ترین ہوسکتے ہیں۔عمران خان کے لاہور والے جلسے کے بعد مگر میں اپنی سوچ پر سوال اٹھانے کو مجبور ہوا ہوں۔میں ہرگز نہیں کہہ رہا کہ لاہور والے جلسے کے بعد تحریک انصاف آئندہ انتخابات Sweepکرے گی۔ اس کے نامزد کردہ امیدوار مگر اس جلسے کے بعد خود کو بہت تگڑا محسوس کریں گے۔ ہمارے لوگوں کو ویسے بھی اپنا ووٹ ”ضائع“ کرنا پسند نہیں آتا۔ کئی ووٹر جب اپنے حلقے میں اپنی پسند کی جماعت کے نامزدکردہ امیدوار کی کامیابی کو غیر یقینی تصور کریں تو جیتنے والے کو ووٹ دے دیتے ہیں۔ پنجاب کے کئی حلقوں میں تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدواروں کو اس رویے کا فائدہ ہوسکتا ہے اور یہ رویہ ”آزاد“ ہوئے افراد کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوگا۔تحقیق کی یقینا ضرورت ہے۔ فیلڈ میں جانا ہوگا۔ لوگوں کو غور سے سننا پڑے گا۔ اس کے بعد ہی رائے بنائی جاسکتی ہے۔ فی الوقت اگرچہ آصف علی زرداری کی اس رائے سے اتفاق کرنا میرے لئے بہت مشکل ہے کہ آئندہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے عمل میں ”آزاد“ ہوئے افراد ہی فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).