کیا مارکسزم کا سورج غروب ہوگیا؟


View post

5 مئی کو کارل مارکس کا دو سو سالہ یوم پیدایش منایا گیا۔ ڈاس کیپیٹال تصنیف کرنے والے اور بین الاقوامی محنت کشوں کی تنظیم، فرسٹ انٹرنیشنل کے روحِ رواں نے پچھلی دو صدیوں میں دنیا کے عوام کو جو شعور بخشا ہے اس کی روشنی اب بھی تاریکی سے معرکہ آراء ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر مارکس نے دنیا کو بدلنے کا عزم نہ کیا ہوتا تو آج، ان کا نام لندن کے ہائی گیٹ کے قبرستان میں ان کی قبر کی لوح ہی تک محدود رہتا۔ بلا شبہ، بیسویں صدی کے نہایت اہم اور معتبر مفکریں پر مارکس کے نظریات کا اثر حاوی رہا ہے۔

اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ دنیا بھرمیں مارکسزم کے نام پرجو ظلم و ستم ہوا ہے اس کا دوش مارکس اور ان کے نظریات کو دیا گیا ہے۔ یہ بڑا ستم ہو گا اگر سویت یونین میں اسٹالن کے دور کے آمرانہ استبداد اور کمبوڈیا میں پول پوٹ کے قتل عام اور تین دہائی سے قبل سویت یونین کی مسماری کا الزام اور ذمہ داری مارکس پر ڈال دی جائے۔

گذشتہ ایک صدی کے دوران کمیونسٹ ممالک میں جو کچھ ہوا اس کے باوجود مارکس، جدید دنیا میں باشعور افراد کے ذہنوں پر ایک اہم ترین مفکر کی حیثیت سے چھائے رہے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کو سمجھنے اور استحصالی قوتوں کے خلاف محنت کش طبقہ کی جدوجہد میں مارکس کے نظریات چراغ راہ ثابت ہوئے ہیں۔ مارکس نے بنی نوع انسان کی خود مختاری اور اپنی تاریخ خود تحریر کرنے کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ آج بھی باشعور عوام کے لئے مشعل راہ ہے۔

بدقسمتی یہ رہی ہے کہ لنین، انگلز اور اسٹالن نے مارکس کو سوشلزم کے نام پر سیکولر مذہب کا پیغمبر بنا کر پیش کیا اور اس سے زیادہ بدقسمتی یہ رہی کہ مارکسسٹ نسلوں نے مارکس کے تاریخ کے فلسفہ کو ایک ایسے تیار شدہ نسخہ کے طور پر پیش کیا کہ جس کی بنیاد پر انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔

دراصل اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا کہ مارکس نے اپنے دور کی اقتصادی، سماجی اور سیاسی حقیقتوں کا جو تجزیہ کیا اسے مستقبل کے انقلابات کا طبی نسخہ تصور کیا گیا۔ مارکس پر یہ تنقید کی جاتی ہے اور اس میں قدرے سچائی بھی ہے کہ مارکس، دنیا بھر کے فلسفیوں اور اقتصادی ماہرین کا مطالعہ کرنے ہر روز برٹش میوزیم تو جاتے تھے لیکن انہوں نے لندن، پیرس اور برلن کی سڑکوں پر عوام کے ساتھ وقت نہیں گذارا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک لندن میوزیم، عافیت کی جگہ تھی جہاں وہ انقلابیوں سے نظریاتی بحث و مباحثہ سے اپنے آپ کو بچا سکتے تھے۔

اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ لینن، اسٹالن، ماؤ اور کاسترو نے مارکس کے صرف ان نظریات کو اپنایا جو ان کے انقلاب کی انتظامی قوت کے لئے درکار تھے۔ اس بات میں بھی وزن ہے کہ 1917 کے بعد سے لینن کی کرشماتی شخصیت اور اس کے بعد اسٹالن کے استبداد کی وجہ سے دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں نے مارکس کے فلسفہ کا بے لاگ تجزیہ نہیں کیا۔

پچھلی صدی کے اختتام پر جب سویت یونین کے کمیونزم کا قلعہ مسمار ہوا تو سب دم بخود رہ گئے اور کوئی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ مارکس کے نظریات کا مستقبل کیا ہو گا۔ عام طور پر یہ کہا گیا کہ سویت یونین اور اس کے زیر اثر ممالک میں جس طرح کمیونزم کی دیواریں ڈھ گئیں اسی طرح مارکسزم کا سورج بھی غروب ہو گیا ہے۔ لیکن یہ غلطی ہو گی اگر ہم یہ سوچیں کہ کمیونسٹ ممالک میں کمیونزم معدوم ہونے کے ساتھ وہ حقیقتیں بھی معدوم ہوگئی ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لئے مارکس نے بنیادی نظریات پیش کئے تھے۔ سویت یونین میں کمیونزم کی ناکامی کی کئی وجوہات ہیں جن میں بنیادی وجہ روسیوں کا آمرانہ پسند مزاج رہی ہے جس نے کمیونزم میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔ اس لحاظ سے سویت یونین میں کمیونزم کی ناکامی کو مارکس کے نظریات کی ناکامی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے مقابلہ میں چینوں نے اپنے منفرد روایتی مصلحانہ مزاج کی مدد سے نہ صرف کمیونزم کو برقرار رکھا بلکہ اس میں ردوبدل کر کے اسے فروغ دیا۔

لندن کے ہائی گیٹ قبرستان میں کارل مارکس کی قبر کی لوح پر لکھا ہے ” دنیا بھر کے مزدور متحد ہو جاو“۔ آج دنیا بھر میں مزدوروں کی جو حالت زار ہے، سرمایہ دارانہ نظام عالمی پیمانہ پر استحصال کے پھریرے لہرا رہا ہے، غریبوں اور امیروں کے درمیان ٹھاٹھے مارتے سمندر کی طرح جو وسیع فرق ہے اس کو عبور کرنے اور اس کے مداوے کے لئے آج بھی مارکس کے نظریات زندہ اور روشن ہیں جن کی روشنائی سے موجودہ تاریکی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani