حشرگلفشانی کا بہرہ پن


بلال: (ہوم ورک کرتے ہوئے) داداجان! یہ خلائی مخلوق کیا ہوتی ہے؟

حشرگلفشانی:  لائی مخلوق نہیں بیٹا! اس کا پورا نام ہے لائی لگ مخلوق۔ اسے لائی لگ اس لیے کہتے ہیں کہ جدھر کوئی ہانک دے،ادھرہی چل پڑتی ہے۔

شاہانہ: داداجان! پھر تو یہ مخلوق گائیوں جیسی ہوئی نا؟

حشرگلفشانی : بالکل سائیوں جیسی، شاباش میری گڑیا۔ یہ ایسے سائیں لوگ ہوتے ہیں کہ انہیں جس ٹرک کی بتی کے پیچھے چاہے لگا دو،دوڑ پڑیں گے۔

انتظارعلی:  (حشرگلفشانی کا بیٹا) بتی چاہے بنیادی جمہوریتوں کے کھٹارے کی ہو یا غیرجماعتی انتخابات کے چھکڑے کی۔ گڈ گورننس کے ٹرک کی ہو یا سونامی کے ٹرالر کی۔

شاہانہ: ابو! آپ کی بات سمجھ تو نہیں آئی مگریہ ان بتیوں کے پیچھے کیوں بھاگتے ہیں؟

انتظارعلی: اس لیے بیٹا کہ سائیں لوگ اورلائی لگ جو ہوئے۔

بلال :  میں خلائی مخلوق کا پوچھ رہاہوں داداجان ۔

حشرگلفشانی: اچھا اچھا بالائی مخلوق۔ بالائی مخلوق وہ ہوتی ہے بیٹا جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، اس لیے انہیں بالائی مخلوق کہا جاتا ہے۔

سلمیٰ:  کیوں بچوں کو گمراہ کیے جا رہے ہیں اباجی! یہ خلائی مخلوق کا پوچھ رہے ہیں۔

حشرگلفشانی: ارے بہو میں بھی تو انہیں دیومالائی مخلوق ہی کا بتا رہا ہوں نا۔ تم بھی سمجھ لو کہ بالائی یا دیومالائی مخلوق وہ ہوتی ہے جو،لائی لگ مخلوق کے ووٹ لے کران کے حقوق غصب کرتی ہے ۔

سلمیٰ:  اور ڈنڈے کے زور پر آنے والی آبائی مخلوق تو ان کے حقوق کا بہت تحفظ کرتی ہے۔

حشرگلفشانی: کُنڈے کے زور پر؟ ارے کنڈے کے زور پر تو بجلی چوری کی جاتی ہے بہو! اس فعل کا حکومت کرنے سے کیا تعلق؟

سلمیٰ : کُنڈا لگا کرعوامی مینڈیٹ بھی چوری کیا جاتا ہے سرجی، اتنے بھولے نہ بنیں۔

انتظارعلی: (قہقہ لگاتے ہوئے) شاہ عنایب کُنڈیاں لائیاں، لُک چھپ کچھدا ڈور…

سلمیٰ: ویسے اباجی! ووٹ والے تو ہر وقت آپ کے نشانے پر ہیں مگر کنڈے لگانے والوں کے خلاف آپ کبھی نہیں بولتے۔

حشرگلفشانی:  کنڈے سے بجلی چوری کرنے والے بڑے بااثر ہوتے ہیں بیٹا،ان کے خلاف بات کر کے مصیبت مول نہیں لینی چاہیے۔

سلمیٰ: ہمارا آپ سے بنیادی اختلاف یہی ہے اباجی! ہم ووٹ پ ربھروسہ کرتے ہیں اورآپ نادیدہ قوتوں پر۔

حشر گلفشانی: پسندیدہ قوتوں پر؟ بالکل صحیح۔ اپنی پسندیدہ قوتوں پر بھروسہ کر کے ہی کامیابی ملتی ہے ہمارے نزدیک عوام کا سونامی سب سے پسندیدہ قوت ہے۔

انتظارعلی: (اونچی آوازمیں) یہ نادیدہ مخلوق کی بات کر رہی ہے قبلہ۔

حشرگلفشانی: میں بھی سنجیدہ مخلوق ہی کی بات کر رہا ہوں قبلہ۔

سلمیٰ: آپ پتہ نہیں بات کو کہاں لے جاتے ہیں اباجی۔ ہمارامطالبہ تو صرف یہ ہے کہ ووٹ کو عزت دو۔

حشرگلفشانی: ہائیں، بوٹ کو عزت دو؟ …ارے بھئی کل ہی تو چوہدری نثار نے قوم کو رہنمااصول بتایاہے کہ انہوں نے ساری زندگی نوازشریف کا سیاسی بوجھ اٹھایا ہے مگر وہ ان کی جوتیاں اٹھانے والے نہیں۔ اب بھی اگر تم جیسے عقل کے اندھے نوازشریف کے بوٹ اٹھانے اورانہیں عزت دینے کے درپے ہیں تو تمہاری مرضی۔ میرا ضمیر تو نہیں مانتا۔

سلمیٰ: آپ کے ضمیر کو سلام اباجی! میرا مطلب یہ تھا کہ ووٹ کو باربار سلامی نہ دی جائے۔

انتظارعلی: سلمیٰ! اباجی یہ کہنا چاہتے ہیں کوئی باضمیرسیاستدان کسی کے انگوٹھے کے نیچے سیاست نہیں کر سکتا۔

سلمیٰ: مگر بوٹ کے نیچے خوشی سے کرسکتا ہے (دونوں قہقہ لگاتے ہیں)

بلال: (چیختے ہوئے) میرے سوال کا جوب دیں دادا جان! مجھے خلائی مخلوق کا بتائیں۔

حشرگلفشانی: ہائیں! تمہیں ابھی خلائی مخلوق کا بھی نہیں معلوم؟ میں پوچھتا ہوں انتظارعلی کہ یہ لوگ سکول میں بچوں کو پڑھاتے کیا ہیں؟

سلمیٰ: خلائی مخلوق تو ابھی خلائی سائنسدانوں کو نظرنہیں آئی اباجی،سکول والوں نے کہاں سے دیکھ لی کہ وہ اس کے بارے میں بچوں کو بتائیں؟

بلال: دادجان! ٹی وی پہ وزیراعظم انکل کہہ رہے تھے کہ اس ددفعہ الیکشن خلائی مخلوق کرائے گی، اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ یہ کیاہ وتی ہے؟

شاہانہ: اور داداجان ٹی وی پر انکل نوازشریف بھی کہہ رہے تھے کہ ان کا مقابلہ خلائی مخلوق سے ہے۔

حشرگلفشانی: (غصے سے) ارے کوئی خلائی مخلوق نہیں آئے گی ،الیکشن کمشن خودصاف اورشفاف انتخابات کرائے گا انشاء اللہ۔ انہیں اپنی شکست نظرآ رہی ہے توایسی بے پرکی اڑاتے ہیں۔ نااہل سدا کے۔

سلمیٰ: (ہنسی روکتے ہوئے) بچوں کو ڈانٹتے کیوں ہیں اباجی ،ان کے سوال کا جواب دیں نا…

حشرگلفشانی: (انتظاعلی اورسلمیٰ سے)پہلے تم میاں بیوی مجھے جواب دوکہ بچوں کو ٹی وی پر ایسے اخلاق باختہ پروگرام دیکھنے کی اجازت کون دیتاہے؟ کیوں بچے ایسے واہیات پروگرام دیکھتے ہیںکہ جن سے ان کے معصوم ذہنوں میں خرافات اور غیراخلاقی سوال اٹھتے ہیں؟

انتظارعلی: ڈیجیٹل عہد کی خرافات سے فرارممکن نہیں رہااباجی! آخرہم کب تک اپنے بچوں سے آنکھیں چُراتے رہیں گے؟

حشرگلفشانی: کیا کہا،ہم کس کی چیزیں چُراتے رہیں گے؟

انتظارعلی: میں نے کسی کی چیزیں چُرانے کی بات نہیں کی حضور۔ ہم نے کبھی کسی کاکچھ چوری نہیں کیا۔ یہ دنیا والے ہی ہمارے اصول چرا کے عیش کررہے ہیں۔

حشرگلفشانی: اچھا اچھا اب میں سمجھا۔ تم نے صحیح کہا، ہم دنیا کوچَرا چَرا کر ہی توعیش کر رہے ہیں بیٹا۔ ارے ہم نے توامریکہ سے امدا دل ے کر اسے بھی ایساچَرایاکہ چکرا کر رہ گیا کمبخت(قہقہ لگاتاہے)

سلمیٰ: اب ہمیں نہ چَرائیں اباجی! انتظارکی آنکھیں چُرانے والی بات کااجواب دیں ۔ ایمانداری سے بتائیں ،ہم نے اپنی جو تاریخ لکھ رکھی ہے، کیاوہ ہم اپنے بچوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں پڑھاسکتے ہیں؟

حشرگلفشانی: ارے تاریخ تم نے نہیں پڑھی بہو! ہم لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرہی انہیں چَراتے رہے ہیں ۔ حیرت ہے بھئی دنیاہمارے کمال فن کومانتی ہے اورتم پوچھ رہی ہوکہ ہم ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرانہیں چَراسکتے ہیں؟

انتظارعلی: جب ہم ان کے آگے اپنا کشکول درازکرکے غُرا سکتے ہیں تو اسے بھروا کرانہیں چَرابھی سکتے ہیں۔

شاہانہ: اس گھرکے بچے کب سے خلائی مخلوق کا پوچھ رہے ہیںمگرجواب میںکوئی ووٹ کو سلامی کی بات کرتاہے اورکوئی کنڈے سے بجلی چُرانے کی۔

بلال: اچھاامی ! آپ یہ بتادیں کہ خلائی مخلوق کو انگلش میں کیا کہتے ہیں؟

سلمیٰ: کچھ بھی نہیں کہتے بیٹا! نہ انگلش میں انہیں کچھ کہہ سکتے ہیں ،نہ اردومیں۔ آپ میراسر نہ کھائو،ابوسے پوچھو۔

انتظارعلی: مجھ سے کچھ نہ پوچھنابھائی ، میں سرکاری ملازم ہوں۔ اپنے داداسے پوچھو(اونچی آوازمیں) انہیں خلائی مخلوق کا بتائیں اباجی!

حشرگلفشانی: ارے جس چیز کایہاں وجود ہی نہیں ہے، میں اس کے بارے میں انہیںکیابتائوں؟

شاہانہ: اللہ! اس گھر کے بڑوں کا جنرل نالج کتنا کمزورہے۔ ایک مخلوق کا اتناچرچاہے اوریہ اپنے بچوں کواس کے بارے میں ذرابھی نہیں بتاپارہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).