گھوڑا تجزیہ سن کر نہیں دوڑتا


گورنمنٹ کالج لاہور 1970ء کی دہائی میں روشن خیال تعلیمی ادارہ تھا۔ خوف کی فضا سے آزاد، اُستاد اور شاگرد کھل کر اظہار خیال کرتے۔ ایم اے کے دوران، حامد یامین ڈار ہمیں مائیکرو اکنامکس پڑھاتے تھے۔ بہت روشن دماغ اُستاد تھے۔ کئی سال امریکہ میں رہے۔ سیاحت کا شوق تھا۔ اقتصادیات کی مشکل گتھیوں کو آسان فہم انداز میں سمجھانے کا فن جانتے تھے۔ اِس غضب اُستاد کی بہت عزت تھی۔ ماشاء اللہ ڈار صاحب، آج کل بھی درس و تدریس سے منسلک، علم کی روشنی بکھیر رہے ہیں۔

ڈار صاحب، ریس کھیلنے کے شوقین تھے۔ اِس عادت پر نہ کبھی شرمندہ ہوئے، نہ معذرت خواہ۔ برملا اپنے شوق کا اظہار کرتے۔ ایک دفعہ کہا اِس ملک کی عظمت کا نشان مینار پاکستان ہے۔ کیا آپ کو علم ہے کہ اِس کی تعمیر ریس کھیلنے والوں اور فلم بینوں پر اضافی ٹیکس سے ممکن ہوئی۔ پھر ہنس کر کہنے لگے کہ حکومت کو چاہئے تھا، اعتراف میں اُن کے لئے ایک تختی ہی لگا دیتی۔

مزے کے اُستاد تھے۔ خشک مضمون بھی دلچسپ طریقے سے سمجھاتے۔ ایک دفعہ (Consumer behaviour)صارف کے طرزِ عمل کی وضاحت کرتے ہوئے اُنہوں نے دلچسپ واقعہ سنایا۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ریس کھیلنے گئے۔ سب دوست گھڑ دوڑ کی باریکیاں سمجھتے تھے۔ ایک مشترکہ دوست، بٹ صاحب بھی ساتھ ہو لئے۔ وہ پہلی دفعہ گھڑ دوڑ دیکھنے گئے تھے۔

دوڑ شروع ہونے سے پہلے باقی دوستوں کو علم ہوا کہ بٹ صاحب، ایک گھوڑے پر شرط لگا آئے ہیں۔ بٹ صاحب نے لہک کر کہا، ’’یار گھوڑے کے چلنے کا انداز بہت اعلیٰ تھا۔ مجھے پسند آ گیا۔ اِن شاء اللہ وہ جیتے گا۔‘‘ باقی دوست جو اِس کھیل کے ماہر تھے، پیچھے پڑ گئے۔ سمجھایا ’’اِس گھوڑے کا ریٹ بدل رہا تھا۔ منٹوں میں کہاں پہنچ گیا۔ ریٹ بدلنے سے جیت کے امکان کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

بڑے بورڈ پر ریٹ تبدیل ہوتا ہے۔ تم اِسے تو دیکھ لیتے۔‘‘ پھر بٹ صاحب کو پتے کی بات سمجھائی، ’’ہمیشہ ماہرین کا تجزیہ سُن کر فیصلہ کرو۔‘‘ بٹ صاحب نو آموز تھے۔ ماہرین سے بحث کرنے کا حوصلہ نہ تھا۔ چُپ سادھ لی۔ ریس ختم ہوئی تو علم ہوا کہ بٹ صاحب کے پسندیدہ گھوڑے نے میدان مار لیا ہے۔ اب بولنے کی باری بٹ صاحب کی تھی۔

اپنے ماہر دوستوں سے مخاطب ہوئے ’’یارو! میں بھی ایک بات کہنے کی جسارت کروں گا۔ گھوڑا، تجزیہ سن کر نہیں دوڑتا۔‘‘

برسوں پہلے کا واقعہ اِس لئے یاد آیا کہ آج کل الیکشن کا بازار گرم ہے۔ ماضی کا رحجان دیکھنے کے لئے، تجزیہ کار 1990ء کی دہائی کے تجربہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اُس زمانے میں ایک طرف غیر سیاسی طاقت تھی اور دُوسری طرف دست و گریباں، دو سیاسی پارٹیاں۔ الیکشن کے نتائج میں اُتار چڑھائو کے جائزے سے نکتہ داں یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مقتدر حلقے ناراض ہوں تو عوامی حمایت بھی ختم ہو جاتی ہے۔

اِس دعویٰ کو الیکشن کی ہار جیت سے ثابت کیا جاتا ہے۔ 1990ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو آنے والے انتخاب میں شکست مقدر ٹھہری۔ 1993ء میں نواز شریف گھر بھیجے گئے تو آئندہ الیکشن میں عوام نے منہ موڑ لیا۔ 1996ء میں پیپلز پارٹی کو رخصتی کا پروانہ ملا تو آنے والے الیکشن میں اُس کے ووٹر پولنگ سٹیشن آنے سے گریزاں رہے۔ اُن کا خیال ہے کہ یہی رحجان اب بھی برقرار رہے گا۔

آئندہ الیکشن میں کوئی پارٹی اپنے تئیں حکومت نہ بنا سکے گی۔ آزاد اُمیدوار بھاری تعداد میں کامیاب ہوں گے۔ مکافاتِ عمل، اچھوتے امکان سامنے لائے گا۔ اِس نقطہ نظر کی مزید وضاحت کے لئے ایک دوست نے لطیفہ سنایا۔ ایک افسر ماتحتوں کے ساتھ تالاب کنارے بیٹھا تھا۔ ایک پتھر پانی میں پھینکا اور ساتھیوں سے اُس کے ڈوبنے پر تاثرات مانگے۔

کسی نے کشش ثقل کو ذمہ دار ٹھہرایا تو کسی نے پتھر اور پانی کی کثافت کے فرق سے وضاحت دی۔ سب کے تبصرے اپنی جگہ مگر جس ماتحت کے سر پر دانشوری کا تاج سجایا گیا، اس کا کہنا تھا ’’سر! میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ جسے آپ نے چھوڑ دیا، وہ ڈوب گیا۔‘‘ اُس دوست کا کہنا تھا کہ گھر بھیجے جانے والی حکومت کو دوبارہ لانا ہے تو اُسے رخصت کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ جو گیا سو گیا۔ اُسے واپس آنے کی تمنا ہو تو نئے سرے سے شرائط نامہ تیار کرے۔

اِن تجزیہ کاروں سے اختلاف کرنا مشکل ہے۔ وہ عملی منطق سے بات کرتے ہیں، مگر 1990ء کی دہائی اور 2018ء میں کافی فرق ہے۔ بہت سا پانی پلوں کے نیچے بہہ چکا۔ سیاست کی کہانی میں ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا، نئے کردار شامل ہو چکے ہیں۔ ٹیلی وژن کو، مالکان کے کاروباری مفاد سے، نکیل ڈالی جا سکتی ہے مگر صحافی کی بات روکنا کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ یہ ایسی مخلوق ہے جو پیغام رسانی کا فن جانتی ہے۔ اُنہی کی حکمت ِ عملی تھی کہ صحافت میں بین السطور لکھنے کا رواج سامنے آیا۔ آج کل ٹیکنالوجی کی آسانیاں ہر کسی کو دستیاب ہیں۔ صحافت جبر کے شکنجے میں آئے تو تحریر اور تقریر بآسانی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہو جاتی ہے۔ قارئین کو پابندی کا علم ہو جائے تو ہر لفظ پر غور کرتے ہیں۔

پاکستان کے ہر شہری کو اندازہ ہے کہ میدان سیاست میں صرف سیاست دان ہی سرگرم نہیں۔ غور طلب سوال ہے کہ غیر سیاسی کردار اِس خارزار میں کتنے مؤثر ہیں۔ کیا جیت ہار کا فیصلہ اُن کی مرضی سے ہو گا؟ صحافی دوست، پرویز مشرف کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہیں۔ سابق صدر نے کھلے بندوں فرمایا کہ وہ تحریک انصاف کو اتنی نشستیں دینے پر رضامند تھے مگر عمران خان نہیں مانے اور معاملہ طے نہ ہو سکا۔

ایک اور لکھاری نے ہندوستان کے ٹی وی پروگرام ’’آپ کی عدالت‘‘ کا ویڈیو کلپ بھیجا۔ اِس پروگرام میں عمران خان نے وضاحت کی کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر کوئی پارٹی الیکشن نہیں جیت سکتی۔ صحافی دوست نے کہا کہ اگر عمران خان اپنے عمل کو اِسی سوچ سے ہم آہنگ رکھنے میں کامیاب رہے تو اقتدار کی منزل کا راستہ، کشادہ ہو جائے گا۔

ایک سنجیدہ قلم کار نے گزشتہ ہفتے، اپنے قارئین کو یہ نوید بھی سنائی کہ آئندہ صدارتی انتخاب میں زرداری صاحب کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ آج کل ’’اوپر سے حکم‘‘ اور ’’خلائی مخلوق‘‘ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وزیر اعظم سے ایک بیان منسوب ہے کہ آئندہ الیکشن، خلائی مخلوق کروائے گی۔ بیشتر تجزیہ کار بھی عوام کو یقین دلانے میں مصروف ہیں کہ الیکشن کے نتائج اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق ہوں گے۔

میرا خیال مختلف ہے۔ ایک سویلین حکومت میں، آزاد الیکشن کمیشن کی زیرِ نگرانی، عام انتخاب کے نتائج پر اثر انداز ہونا آسان نہیں۔ عوام وقت کے ساتھ باشعور بھی ہو رہے ہیں اور آزاد بھی۔ اُن کی اپنی پسند اور ناپسند ہے۔ وہ مجھ جیسے تجزیہ کاروں کی تحریر پڑھ کر ووٹ نہیں دیتے۔ بالکل اِسی طرح جیسے بٹ صاحب نے کہا تھا ’’ گھوڑا تجزیہ سُن کر نہیں دوڑتا۔‘‘

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood