بابے ۔۔۔ اور ان کی اقسام


عورتوں اور والدین کے بعد میں جن کی تہہ دل سے عزت کرتا ہوں وہ بابے ہیں۔ کیونکہ جس عمر میں وہ لوگ ہوتے ہیں ان کا دل ایک چھوٹے بچے کی طرح کا ہوتا ہے جو ہر چھوٹی بات پہ روٹھ جاتا ہے۔ ان سے باتیں کر کے یا ان کی زندگی کے متعلق کہانیاں سن کر آپ زندگی کا وہ سبق حاصل کر سکتے ہیں جو عموماً آپ کسی بھی کالج یا یونیورسٹی سے حاصل نہیں کر سکتے۔ میرا اتوار زیادہ تر تو سو کر ہی گزرتا ہے لیکن اتوار کا بقیہ دن اپنے گاوٴں کے بابوں کے ساتھ بات چیت اورہنسی مزاح میں ہی گزارتا ہوں۔ باتوں باتوں میں وہ اپنی زندگی کی تلخ یادیں بھی شئیر کر دیتے ہیں جو کہ سن کر عام آدمی ان کی بہادری کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اب ضروری نہیں کہ ہر بابے کی زندگی مشکلات سے دوچار ہو کر ہی گزری ہو سکتا ہے کچھ نے بڑی پرتعیش زندگی گزاری ہو لیکن ہم لوگ اپنی زندگی گزارنے کے لئے ان کی زندگیوں سے بھی سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ ہنر ان کے پاس بھی ہوتے ہیں اگر انہوں نے سکون کی زندگی گزاری ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ پرتعیش زندگی ان کو بہت آسانی سے مل گئی ہوگی پتا نہیں انھوں نے اس کے لئے کتنے پاپڑ بیلے ہیں کیا کیا ہنر آزمائے ہیں تب جاکر وہ پرسکون زندگی حاصل کرسکے ہیں۔

پنجابی کا محاورہ ہے کہ ”بابیوں بنا بکریاں نئیں چر دیاں” یہ محاورة میری بات کی صحیح ترجمانی کرتا ہے اور ان لوگوں کے لئے اس محاورة میں ان کے طعنے کا جواب ہے جو کہ اکثر و بیشتر مجھے اپنے دوستوں سے سننا پڑتا ہے کہ سیٹھ تم ہر وقت بابوں کے پاس ہی بیٹھے رہتے ہو۔

ادھیڑ عمری میں حالات کی مناسبت سے بابوں کے جذبات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ جذبات اور لائف سٹائل کے لحاظ سے ان کی بہت سی اقسام ہیں لیکن میں اپنے ناقص العقل اور تجربہ کے لحاظ سے صرف پانچ اقسام کا ہی تذکرہ کروں گا۔

ویلے بابے :
ویسے تو ہر بابا ہی ویلا ہوتا ہے لیکن بابوں کی یہ قسم بس تین ٹائم کی دو دو روٹیاں کھانے والا ہی کام کرتے ہیں۔ ایک ہاتھ میں ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں دھوتی کی کنی سنبھالے یہ دیہاتوں میں بنے دائروں میں کھیلتے بچوں کو ہدایات دینے اور ان کے والدین کے لئے سی سی ٹی کیمرے کی حیثیت سے ایک نکڑ میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کی رفیقہ حیات یا تو اللہ کو پیاری ہو چکی ہوتی ہیں یا اپنے لعل کے لعلوں سے پیار جتاتی رہتی ہوں گی۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ یہ پیار بس گھر میں ٹکے رہنے کے لئے ہی جتایا جاتا ہے۔ ان کی اکثریت ایک ٹولے کی شکل میں کسی ٹاہلی کی چھاوں میں بیٹھی گھریلو ناچاقیوں اور نئی نسل کی بدتہذیبیوں  پہ گفت و شنید کرتے ہوئے وقت گزاری کرتی ہے۔

ویلے مصروف بابے :
اس طرح کے بابوں کے متعلق مجھے زیادہ تفصیل سے بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے بارے ہمارے پنجابی کےایک  مزاحیہ شاعر زلفی صاحب نے اپنی نظم بعنوان ویلا بابا کے پوری تفصیل سے بتایا ہے۔ سارا دن مصروفیت میں گزار کر بھی یہ بابا ویلا ہی رہتا ہے۔ یہ بابے بوقت جوانی رن مرید ہوتے ہیں۔ ان کا سارا دن پوتے پوتیوں اور پہو بیٹیوں کی فرمائشیں پوری کرنے میں گزر جاتا ہے۔ اور خود پھیکی چاء کو بھی ترستے رہتے ہیں۔ ان کی جیب میں پانچ روپے بھی ہوں تو کوشش ہوگی یہ بھی پوتے کو دے دوں۔ ان کا ماننا  ہے کہ ہمارا تو وقت گزر گیا ہے اب تو بس دو وقت کی روٹی مل جائے بہت ہے۔ ایک نوکر اور اس قسم کے بابوں میں صرف یہ فرق ہوتا ہے کہ  یہ اپنا کام پوری ایمانداری سے کرتے ہیں۔ اگر مالکن ڈانٹ بھی دے تو آگے سے اف تک نہیں کہتے۔

سیاسی بابے :
میرا کہنا ہے کہ ایسے بابوں کو اللہ لمبی عمر کبھی نہ دے۔ کیوںکہ جتنے خطرناک یہ ہوتے ہیں کوئی اور نہیں ہوتا۔ ان کی نظر میں سب سے زیادہ سیانا اور عقل مند یہ خود ہوتے ہیں۔ اور اپنی انا اور چودھراہٹ کو قائم رکھنے کے لئے دھرابندی اور ذات برادری کا فرق ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور  اپنے ہمنواوں کو بھی  اس کی تلقین کرتے ہیں۔ یہ اپنے گھر کے بڑے بھی ہوتے ہیں اور اتنے بڑےہوتے ہیں کہ ان کا بڑا بھائی (اگر زندہ ہو تو)  بھی ان کا چھوٹا بھائی بن کر زندگی گزارتاہے۔ ان کے منہ سے نکلنے والا ہر حرف، حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی لیڈر جب ووٹ مانگنے آئے تو خاندان کے سبھی ووٹرز یک زبان ہو کر ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جو ہمارے وڈے فیصلہ کریں گے وہ من و عن ہمیں قبول ہوگا۔ اور وڈے وڈیرےبھی  ایک ہاتھ سے مونچھوں کو تاؤ دیتے  اور دوسرے سے حقہ کی نلی سنبھالتے ہوئے فخریہ انداز سے لیڈر کو جیت کی خوشخبری سنا دیتے ہیں۔

نمازی پرہیزی بابے :
یہ بابوں کی وہ قسم ہے کہ جن کو گھر میں سالن بھی دوسری مرتبہ نہیں ملتا اور  مسجدوں میں یہ بچوں کی ایک صف  بنواتے بنواتے ان کی ماں بہن ہی ایک کر دیتے ہیں۔ بزرگی اور سفید داڑھی کی بدولت مسجد پہ ان کا آمرانہ قبضہ ہوتا ہے۔   مسجدکے سپیکر سے نکلنے والی آواز سے  چونکہ لوگ بہت مانوس ہو چکے ہوتے ہیں اس لیے جس دن اس آواز سے ذرا مختلف قسم کی آواز سنائی دے تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ اللہ رکھا کو اب اللہ نے رکھ لیا ہے۔ ایسے بابے پتا نہیں خود نمازی پرہیزی ہوتے ہیں بھی  کہ نہیں لیکن ان کا بڑھاپا  محلے کےبچوں کو  مسجد اور نماز سے پرہیز کرواتے ہی گزر جاتا ہے۔

دیگر بابے :
دیگر بابوں کی میں نے قسم اس لیے بنائی ہے کیونکہ ان کے دماغ ہمیشہ دیگر کاموں اور باتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ وہی بابے ہیں جن کے بارے میں تانگے کے پیچھے بیٹھی مٹیار یہ طعنہ دینے پہ مجبور ہوجاتی ہے کہ بابا ” اپنی عمر ویکھ تے اپنے کم ویکھ ” ایسا  طعنہ سن کر بجائے شرمندہ ہونے کے یہ بابا جی آگے سے راحت علی کا گانا دل تو بچہ ہے جی گنگنانے لگ جاتے ہیں۔ ایسے بابے عموما محلے کے شریر بچوں کی شرارت کا اور جوان بچوں کی محفل کا سامان ہوتے ہیں۔

سیٹھ وسیم طارق
Latest posts by سیٹھ وسیم طارق (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).