جب میں نے چاند پر پہلا قدم رکھا تو میں بالکل نہیں روئی
کہتے ہیں کہ انسان نے پہلی بار چاند پر 1969 میں قدم رکھا تھا۔ بچپن میں یہ بات سنی اور اتنی متاثر ہوئی کہ اس کی کھوج میں لگ گئی۔ اُس زمانے میں انٹرنیٹ نہیں تھا تو بس اخباروں سے گزارا چلتا تھا۔ اسی وجہ کی بنیاد پر ”دی نیوز“ انگریزی اخبار لگوایا جس کا بِل اَمّی کو ہر مہینے ہی بلبلا دیتا تھا کیونکہ محدود آمدنی میں یہ ایک اضافی خرچہ تھا جو میرے سر پھرے ہونے کی وجہ سے تھا۔
تھوڑی اور بڑی ہوئی تو کچھ کتابیں ایسٹرونومی کی چچا سے منگوائیں جو کہ پی آئی اے میں تھے اور ہمیشہ مجھے غیر ملکی میگزین اور کتب بھی منگوا دیتے تھے۔ آج تک مجھے اردو ناول اور شاعری کی کتب وہی خرید کر کینیڈا پارسل سے بھیجتے ہیں۔ نیل آرم سٹرانگ کے بارے میں انہی اخبارات اور میگزین سے پتہ چلا۔ پھر ان چچا نے ہی امریکہ سے پتہ نہیں کس طریقے سے مجھے نیل آرم سٹرانگ کے آٹو گراف والی تصویر بھی منگوا دی۔ میں تو خیر تب ہی اوور دا مون تھی خوشی سے، خیر انہی دنوں میری ایک دوست مونا امریکہ سے واپس ہجرت کر کے پاکستان آئی اور سینٹ میریز کونونٹ ملتان میں میری ہم جماعت بن گئی۔ اس کے والد امریکہ میں پروفیسر تھے اور وہ ناسا کے بارے میں کافی کچھ جانتی تھی، خود بھی ایسٹروناٹ بننا چاہتی تھی۔ لیکن قسمت کا کرنا کیا ہوا کہ ان کے ابا واپس پاکستان آ گئے۔ خیر سے اب وہ ڈاکٹر ہے۔ مونا نے مجھے ناسا کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔ ایک میں ہی تھی جو اس سے امریکہ کی زندگی کے بارے میں باتیں کیا کرتی تھی۔ شاید مجھے ہمیشہ کے لیے کینیڈا جو آنا تھا۔
وقت گزرتا گیا اور میں ان ملے جلے خیالات اور پسند ناپسند کے ساتھ بڑی ہو گئی۔ ناسا جانے کا خواب کون کافر پورا کر سکتا تھا، یا میں اگر کافر ہوتی تو شاید پورا کر لیتی۔ وقت اور گزرا اور میری شادی کینیڈا میں ہو گئی۔
جب میری فلائٹ کا دن آیا تو میں بہت خوش تھی کہ اپنے سسرال جا رہی ہوں۔ سب رشتے داروں سے وداع ہوئی، امی جو مُجھے چھوڑنے ملتان سے اسلام آباد تک آئی تھیں ان سے گلے ملی اور بالکل نہیں روئی۔ تمام رشتے دار باہر ہی رہ گئے اور میں بورڈنگ لاؤنج تک اکیلی آ گئی۔ اگے بھی سفر اکیلے ہی کرنا تھا۔ میں بہت خوش تھی۔ اچانک میری فلائٹ کی اناؤنسمینٹ ہوئی، میں نے اپنا سامان اٹھایا اور اپنی فلائٹ پر ساتھ جانے والے مسافروں کے ساتھ لائن میں لگ گئی۔ 2005 میں ٹنل کا کانسیپٹ نہیں تھا اور سیڑھیوں سے ہی مسافر جہاز تک پہنچتے تھے۔
لوگ اگے بڑھتے گئے اور آخر کار میری باری آ گئی۔ اب جب فلائٹ اٹینڈنٹ نے مجھے ویلکم کہا تو ایک ہی لمحے میری ساری خوشی کہیں غائب ہو گئی۔ میں سیڑھیوں پر قدم رکھنا چاہتی تھی لیکن میرے قدم ہی نہیں اُٹھ رہے تھے۔ میں نے دائیں، بائیں، پیچھے مُڑ کے دیکھا تو کوئی ایک چہرہ بھی جانا پہچانا نہیں تھا، سب ہی اجنبی لوگ تھے۔ میں بالکل تنہا اجنبی لوگوں کے درمیان کھڑی تھی۔
فلائٹ سٹیورڈ نے دوبارہ مجھے ویلکم کہا تو میں اس کی شکل ایسے دیکھنے لگی جیسے اس نے فارسی میں کچھ کہا ہو۔ وہ دیکھ سکتا تھا کہ میرے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا۔ اس نے ایئر ہوسٹس کو بلایا کیونکہ میں سیڑھیوں پر چڑھ ہی نہیں پا رہی تھی اور میرے پیچھے مسافروں کی لمبی قطار تھی۔ ان کے لیے روز کی بات تھی اس لیے وہ میری گھبراہٹ بھی سمجھ گئے تھے اور یہ بھی جان گئے تھے کہ میں پہلی بار سمندر پار جا رہی ہوں کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔
ایئر ہوسٹس نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے سیڑھی پہ اوپر کی طرف کھینچا، میں کسی نہ کسی طرح اپنی سیٹ تک پہنچ گئی۔ جب تک جہاز ٹیکسی کرتا رہا میں عجیب کیفیت میں رہی۔ میں اتنی خوفزدہ تھی جیسے کوئی بچہ میلے میں گم ہو گیا ہو۔ تھوڑی دیر یہی کیفیت رہی لیکن پھر جلد میرا ٹاکرا پاس بیٹھی تین نو بیاہتا لڑکیوں سے ہو گیا جو میری ہی طرح پہلی بار بیاہ کر کینیڈا جا رہی تھیں۔ اور ان کے خاوند بھی جاب سے چُھٹّی نہ ملنے کہ وجہ سے ان کو لینے نہیں آ سکے تھے۔
میرا وہ قدم جو میں نے جہاز پر چڑھتے ہوئے پی آئی اے کی فلائٹ میں سیڑھی پر رکھا تھا مجھے کبھی نہیں بھولے گا۔ وہاں کھڑے کھڑے ایک منٹ میں پوری زندگی فاسٹ فارورڈ ٹائم لیپس کی طرح میری انکھوں میں دوڑ گئی۔ لیکن یہ قدم وہ قدم نہیں جس کا میں ذکر کرنا چاہتی ہوں اور جو انسان کے چاند پر پہلا قدم رکھنے جیسا تھا۔
میرا چاند پر پہلا قدم وہ قدم تھا جو 14 گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد میں نے ٹورنٹو ایئر پورٹ پہ رکھا۔ میں ایک بالکل نئی دنیا میں تھی۔ ہر طرف شور، گہما گہمی تھی۔ لاؤنج سے باہر آئی تو ہر طرف مختلف ممالک کے لوگ نظر آئے اور میرے سسرال والے جو گھنٹوں سے میرے منتظر تھے، انہی کے ساتھ ایئر پورٹ سے باہر نکلی تو دسمبر کی یخ بستہ ہوا نے میرا استقبال کیا۔
یہ میرا تاریخی قدم تھا جو میں نے ایک دنیا عبور کر کے دوسری دنیا میں رکھا تھا۔ تب سے اب تک میں دو دنیاؤں میں زندہ ہوں، ایک میرا وہ گھر جہاں میں پیدا ہوئی، اور ایک میرا یہ گھر جہاں میں ایک ماں ہوں، ایک بیوی ہوں۔
میرے خیال سے نیل آرم سٹرانگ کے چاند پر پہلے قدم میں اور میرے ٹورنٹو کی زمین پر پہلے قدم میں تھوڑا سا ہی فرق ہو گا۔ یہ بالکل نئی دنیا تھی اور یہاں کی زمین نے میرے قدموں کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا کبھی نہ چھوڑنے کے لیے۔
- ”خدارا دلہن کو بخش دو“ - 25/02/2020
- معجزہ، جو ایک تحریر کا منتظر تھا - 17/07/2019
- کیا آپ عیسائی ہیں؟ - 28/12/2018
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).