نواز شریف مسلم لیگ ن کے بھٹو بن گئے ہیں


سابق وزیر اعظم اور آج کے لبرل لیڈر نوازشریف کا سیاسی کیرئیر بہت دلچسپ اور حیران کن ہے۔ جب سے نوازشریف سیاست کی دنیا میں داخل ہوئے ہیں۔ سرپرائز پہ سر پرائز دیتے چلے جارہے ہیں۔ ایک انسان جو لاہور کے تاریخی و روائیتی علاقے گوالمنڈی کا ایک کونسلر تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی سیاست میں ایک مقبول لیڈر بن گیا۔ پھر ایک دن گوالمنڈی کا کونسلر پاکستان کا وزیر اعظم بن بیٹھا۔ جنہوں نے نوازشریف کو اپنے مفادات کی خاطر وزیر اعظم بنایا تھا۔ پھر وہ ان قوتوں کے مخالف ہو گئے۔ اس سارے عمل کے دوران حیران کن بات یہ ہے کہ ان کی مقبولیت میں کمی نہیں ہوئی۔ 1997 کے عام انتخابات کے بعد نواز شریف صاحب پاکستان کے پاپولر وزیراعظم بن گئے۔

وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی نواز شریف نے کہا تھا کہ ان سے پہلے وزرا اعظم کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے۔ اب ویسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ لیکن ایک بار پھر مارشل لا نافذ ہو گیا۔ سب کو یقین تھا کہ نواز شریف اس مارشل لا کے خلاف میدان میں آئیں گے۔ لیکن وہ سیاست کا میدان چھوڑ کر معاہدہ کرکے سعودی عرب روانہ ہو گئے۔ یہ بھی ایک سرپرائز تھا۔ اس سرپرائز کا طعنہ آج تک انہیں دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد سب نے کہنا شروع کردیا کہ نوازشریف کی سیاست کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ وہ تقریبا دس سال تک ملک سے باہر رہے۔ دوبارہ پاکستان میں آئے۔ پاکستان میں آتے ہی انہیں ایک بارپھر اقتدار مل گیا۔ دو تہائی اکثریت حاصل کر لی۔

اب کہا گیا کہ اس بار انہیں اقتدار سے ہٹایا نہیں جاسکے گا۔ لیکن انہیں اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ مقدمات قائمکیے گئے۔ بچوں اور شریف فیملی کے اور بہت سے افراد پر مقدمات بنائے گئے۔ مشکلات میں ڈالا گیا۔ بیگم خطرناک مرض میں مبتلا ہیں۔ نواز شریف کو بھی بیگم کی تیمارداری کے لئے کئی مرتبہ لندن جانا پڑتا ہے۔ جب بھی وہ لندن جاتے ہیں۔ ان کے مخالفین یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیتے ہیں کہ اس مرتبہ وہ پاکستان نہیں لوٹیں گے۔ لیکن نوازشریف نے ہر مرتبہ سرپرائز دیا۔ اور پاکستان وآپس آئے۔ پاکستانی نیوز چینلز کے تقریبا تمام پڑھے لکھے اینکرز۔ سیاسی عسکری تجزیہ کاروں کا یہ کہنا تھا کہ وہ پہلے کی طرح جدہ بھاگ جائیں گے۔ لیکن اس مرتبہ وہ جدہ نہیں گئے۔ اور مزاحمت کی سیاست کا آغاز کردیا ہے۔ یہ بھی ایک سرپرائز تھا۔ ان کا مشکل حالات میں نہ بھاگنا اپنے آپ میں ایک بہت بڑا سرپرائز ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پاکستان کے لبرل اور سیکولر تجزیہ کار ایک دلچسپ سیاسی شخصیت سمجھتے ہیں۔ لبرل تجزیہ کاروں کے مطابق نوازشریف صاحب جب اقتدار میں ہوتے ہیں۔ تو اپوزیشن میں جانے کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔ اور جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اقتدار کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔ اس مرتبہ تو کمال ہی ہو گیا کہ حکومت ان کی پارٹی کی ہے۔ لیکن وہ اپوزیشن میں ہیں۔ اقتدار ان کی پارٹی کے ہاتھ میں ہے اور اپوزیشن بھی وہ کررہے ہیں۔ نوازشریف کے بارے میں ان کے خاندان کے قریبی بزرگ اور دوستوں کا کہنا ہے کہ شروع میں انہیں سیاست اور اقتدار میں آنے کی خواہش نہیں تھی۔ انہیں کرکٹ سے محبت تھی۔ صبح شام کرکٹ کھیلتے تھے۔ محدود خواہشات تھی۔ لیکن وہی نواز شریف گوالمنڈی کا کونسلر بنا۔ پھر وزیر اعظم بن گیا۔

ان کی ایک ایسی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں فرق نہیں پڑا اور ان کی سیاست اب تک زندہ ہے۔ نوازشریف کی خاصیت یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔ ہر مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد کوئی نئی چیز سیکھی ہے۔ سیکھنے سکھانے کی وجہ سے انہیں اقتدار سے بھی ہٹایا گیا۔ نوازشریف نے جو کچھ سیکھا وہ کبھی بھلایا نہیں۔ جب 1992۔ 93میں نواز شریف نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ اب وہ دوبارہ اقتدار میں آئے یا نہ آئے۔ لیکن ایک بات وہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ دوبارہ کسی جرنیل کے کندھے پر بیٹھ کر اقتدار کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بات پر وہ آج تک قائم ہیں۔ اسی بات نے انہیں لیڈر بنادیا اور اسی بات کی وجہ سے وہ مشکل میں ہیں۔ اب نواز شریف کی موجودہ سیاست پر کچھ بات کر لیتے ہیں۔

حکمران سیاسی جماعت یعنی مسلم لیگ ن کی قیادت اب اپ گریڈ ہو گئی ہے۔ وہ انسان یعنی نواز شریف جو پاکستان مسلم لیگ ن کا صدر بننے کا اہل نہیں۔ پاکستان کا وزیر اعظم بننے کا اہل نہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے انہیں تاحیات مسلم لیگ ن کا قائد بنا دیا ہے۔ اب نواز شریف تاحیات مسلم لیگ ن کے قائد رہیں گے۔ یہ ترقی نہیں تو اور کیا ہے؟ اب آگے ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر کی ایکٹنگ کریں گے کیونکہ وہ ایکٹنگ صدر ہیں۔ ویسے بھی پاکستان کی سیاسی دنیا پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو شہباز شریف سے بڑا کوئی سیاسی اداکار نہیں ہے۔ بطور سیاستدان وہ کمال کی اداکاری کا مظاہرہ کئی سالوں سے کرتے آرہے ہیں۔ نواز شریف اب وہ الطاف حسین۔ جی ایم سید۔ ولی خان۔ باچا خان ہو گئے ہیں۔ نوازشریف اپ گریڈ ہونا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن انہیں اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ۔ عدالت اور دھڑنا سیاست کے آقاوں نے انہیں قائد کا درجہ دلوایا ہے۔

یہ کمال کی بات ہے کہ نواز شریف نے اس اپ گریڈیشن کے لئے خود کچھ نہیں کیا۔ وہ تو اب تک وہی کرتے آئے ہیں۔ جو پہلے کرتے آئے ہیں۔ لیکن قسمت کے دھنی ہیں۔ ان کے مخالف ان کی سیاست کو مرنے ہی نہیں دیتے۔ اسٹیبلشمنٹ۔ عدالت۔ پاکستانی نیوز چینلز کے اینکرز سب کے سب ان کی اپ گریڈیشن کے ذمہ دار ہیں۔ نوازشریف بھٹو کی طرح فلسفی نہیں۔ کوئی بہت بڑے دانشور نہیں۔ ان میں بطور لیڈر نایاب خصوصیات نہیں۔ لیکن ان کا بیانیہ اوپر جارہا ہے۔ سیاست سے آوٹ کردیئے گئے ہیں۔ لیکن گراف بڑھتا جارہا ہے۔ کہا گیا نا اہلی کے بعد ان کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی وجہ سے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو شکست ہو جائے گی۔ کیا ایسا ہوا؟ انہیں سیاست سے دور نہیں کیا جاسکا۔

باریک بینی سے سیاست کو دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ آئے گی کی نواز کی مزاحمت کی سیاست مسلم لیگ ن کو پنجاب میں اکثریت دلوائے گی۔ نواز شریف کے نئے بیانیے کا مذاق اڑایا گیا۔ ظنز کے تیر چلائے گئے۔ لیکن بیانیہ کامیاب ہو گیا۔ شروع میں بیانیہ کیا تھا۔ صرف تین لفظوں پر مبنی۔ لیکن ان تین لفظوں کی افادیت سمجھی اور سوچی جائے تو سب کچھ ہے۔ نواز شریف کا بیانیہ یہ ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ جو خوب بک رہا ہے۔ پنجاب کے عوام دھڑا دھڑ اس بیانیے کے خریدار نظر آتے ہیں۔ بیانیہ بہت معصوم اور سادہ ہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ وہ کہتے ہیں آپ کرپٹ ہیں۔ آپ نے اربوں کی جائیدادیں بنائی ہیں۔ آپ نے ملک لوٹا ہے۔ برطانیہ سے جدہ تک آپ کی جائیدادیں اور بنک اکاونٹس ہیں؟ لیکن نواز شریف بار بار سوال کرتے ہیں کہ بھائی بتاؤ مجھے کیوں نکالا؟ نوازشریف بیانیے میں کسی سیاسی فلسفے میں نہیں پڑے۔ سادہ سی بات کی مجھے کیوں نکالا؟ اس بات کی سمجھ عوام کو آگئی ہے۔ لیکن ان کو اب بھی نہیں سمجھ آرہی جنہو ں نے نواز شریف کو نکالا۔

عدالتوں نے، جے آئی ٹی نے، اقامہ نے، پارٹی کے ناراض ارکان نے، اسٹیبلشمنٹ نے، پی پی پی کی سیاست کو ہمیشہ زندہ رکھا ہے۔ اب یہی کچھ نوازشریف کا مقدر بن گیا ہے۔ نواز شریف کو مسلم لیگ ن کا بھٹو بنا دیا گیا ہے۔ کیسے اس طرح سے نواز شریف کو سیاست سے دور کیا جاسکتا ہے۔ نواز شریف نے کہا پاکستان کو لبرل اسٹیٹ ہو نا چاہیے۔ تمام روائیت پسندوں نے مخالفت کی۔ لیکن تمام لبرل ان کے ساتھ آگئے۔ نواز شریف نے کہا مجیب ا الرحمان کو بغاوت پر مجبور کیا گیا ورنہ وہ پاکستان کو توڑنا نہیں چاہتے تھے۔ سب نے کہا نوازشریف مل دشمن ہے اور مجیب جیسے غدار کی حمایت کررہا ہے۔ نواز شریف نے ممبئی حملوں کے حوالے سے روایت سے ہٹ کر بیان داغ دیا۔ لیکن ان کا گراف اوپر گیا۔

یہ وہ باتیں ہیں جو معلوم نہیں ان قوتوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آرہی۔ جو نواز شریف کی سیاست کو زندہ درگور کرنا چاہتی ہیں۔ نوازشریف کی جگہ اب شہباز شریف مسلم لیگ ن کے صدر ہیں۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جرنیلوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ ایکٹنگ صدر ہیں۔ اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھنے کی ایکٹنگ کرتے رہیں گے۔ جب تک نواز شریف موجود ہیں اور مسلم لیگ ن کے قائد ہیں۔ ہوگا وہی جو نواز شریف چاہیں گے۔ چاہے نوے فیصد مسلم لیگ ق لیگ بن جائے۔ پنجاب میں پھر بھی نوازشریف ہی جیتیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).