کیا کامیاب شادی کے لیے محبت کافی ہے؟


میں جب شادی کے موضوع پر دوستوں سے تبادلہِ خیال کرتا ہوں تو ان کے دو گروپ بن جاتے ہیں۔

پہلا گروپ روایتی شادیوں کے حق میں ہوتا ہے اور ARRANGED MARRIAGES کی طرف داری کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوجوان محبت ‘شادی اور بچوں کے بارے میں ناتجربہ کار ہوتے ہیں۔ وہ دانشمندانہ فیصلے نہیں کر سکتے اس لیے انہیں اپنے والدین کی پسند اور دانائی کے آگے اپنی رائے قربان کر دینی چاہیے۔

دوسرا گروپ غیر روایتی شادیوں کے حق میں ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ نوجوانوں کو پورا حق ہونا چاہیے کہ وہ اپنے شریکِ سفر خود تلاش کریں LOVE MARRIAGES کریں اور اپنے فیصلے کی ذمہ داری قبول کریں۔ یہ گروپ ارینجڈ شادیوں کو زمانہِ جاہلیت کی روایت سمجھتا ہے۔

جب میں خود ایک ٹین ایجر ہوتا تھا اور ڈیل کارنیگی کی انسانی نفسیات کی کتابیں پڑھتا تھا تو ڈیل کارنیگی کے ایک مشورے کے بارے میں غور کیا کرتا تھا۔ وہ فرماتے ہیں کہ انسان کی زندگی بھر کی خوشی اس کے دو فیصلوں پر منحصر ہوتی ہے۔ پہلا فیصلہ اپنے پیشے کا اور دوسرا فیصلہ شریکِ سفر کے چنائو کا ہے۔ جو لوگ یہ دو فیصلے صحیح کرتے ہیں وہ زندگی میں کامیاب اور خوشحال رہتے ہیں۔

نوجوانی میں میں یہ سوچا کرتا تھا کہ اپنے پیشے کے فیصلے میں لوگ بیس برس گزار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ‘انجینیر‘ وکیل یا پروفیسر بننے سے پہلے وہ دو دہائیاں سکول ‘کالج اور یونیورسٹی میں گزار دیتے ہیں لیکن اپنے شریکِ حیات کو چننے کا فیصلہ وہ بیس منٹ میں کر دیتے ہیں۔ لڑکے یا لڑکی کی تصویر دیکھی یا مختصر ملاقات کی یا رشتہ داروں نے پانچ دس سوال پوچھے اور فیصلہ کر لیا۔ میرے والد عبدالباسط نے ریاضی میں ایم ایس سی کیا لیکن میری والدہ کو دیکھے بغیر شادی کر لی۔ رشتہ داروں نے کہا کہ دونوں خاندان کشمیری ہیں امرتسر سے لاہور ہجرت کر کے آئے ہیں اور پنجابی بولتے ہیں۔ ان کے لیے شادی کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ انہوں نے یہ نہیں دیکھا یا سوچا کہ ان کی شخصیات کے بارے میں بھی غور کیا جائے۔ ان کے مزاجوں میں بعد المشرقین تھا۔ وہ ساری عمر دریا کے دو کناروں کی طرح رہے۔ تضاد اتنا شدید تھا کہ میرے والد ذہنی بحران کا بھی شکار ہو گئے۔

جو لوگ روایتی شادیوں کے حق میں ہیں وہ محبت کی شادیوں کے بارے میں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان میں طلاقیں زیادہ ہوتی ہیں۔ وہ شادی کی مجبوریوں اور طلاق نہ لیتے کو شادی کی کامیابی سمجھتے ہیں۔ میری نگاہ میں اگر دونوں میاں بیوی ایک دوسرے سے خوش نہیں ہیں تو پچاس برس کی شادی بھی کامیاب شادی نہیں کہی جا سکتی۔

مغرب میں عورتوں کی جدوجہد نے عورتوں کو یہ سکھایا ہے کہ اگر وہ کالج کی ڈگری لے لیں‘ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر لیں ‘ملازمت اختیار کر لیں اور مالی طور پر آزاد اور خود مختار ہو جائیں تو پھر اگر ان کا شوہر ان پر جبر کرے یا ظلم کرے یا ان کی بے عزتی کرے تو وہ طلاق لے کر اکیلے رہ سکتی ہیں۔ میں نے پاکستان میں بہت کم عورتوں کو اکیلے رہتے دیکھا ہے۔ مغرب میں پروفیشنل عورتوں کا اکیلے رہنا اور اپنے لیے خود شریکِ سفر تلاش کرنا ایک عام بات ہے۔ اسی طرح اگر مرد یہ سمجھے کہ اس کی بیوی اس کی عزت نہیں کرتی‘ احترام نہیں کرتی بلکہ اس کی توہین کرتی ہے‘ تذلیل کرتی ہے اور بعض حالات میں تو اسے مارتی پیٹتی بھی ہے تو وہ بھی طلاق لے سکتا ہے۔ شادی لفظ کا مطلب بھی خوشی ہے۔ اگر شادی میں خوشی نہیں وہ وہ کیسی شادی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کامیاب شادی کے لیے محبت کافی ہے؟ میں تیس سالہ پیشہ ورانہ تجربے اور ان گنت جوڑوں کی تھیریپی کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ محبت کامیاب شادی کے لیے ضروری ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ محبت کے علاوہ دو اور باتیں بھی اہم ہیں۔

پہلی بات جوڑے کے لیے خاندان اور رشتہ داروں کی نیک خواہشات اور اگر وہ کسی بحران کا شکار ہوں تو ان کے عزیز ان کی مدد کریں۔ وہ محبت کرنے والے جوڑے‘ جن کے خاندان والے ان کی شادیاں قبول نہیں کرتے‘ میں ان کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنا دوستوں کا خاندان بنائیں جسے میں family of the heart کہتا ہوں۔ بعض حالات میں دوست رشتہ داروں سے زیادہ باوفا اور مخلص ہوتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ کیا جوڑے اپنے مسائل خود حل کر سکتے ہیں۔ بہت سے جوڑے ایک دوسرے سے پیار تو کرتے ہیں لیکن ان کی کمیونیکیشن اتنی کمزور ہوتی ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاتے ہیں ‘غصے میں آ جاتے ہیں اور دن رات لڑتے رہتے ہیں۔ ہم اپنے کلینک میں ایسے جوڑوں کو ایک دوسرے سے عزت اور احترام سے تبادلہِ خیال کرنا اور اپنے مسائل اور تضادات کو خوش اسلوبی سے حل کرنا سکھاتے ہیں۔ وہ مسائل نفسیاتی بھی ہو سکتے ہیں ازدواجی بھی‘ جنسی بھی ہو سکتے ہیں معاشی بھی۔ جب جوڑے کمیونیکیشن کے راز سیکھ جاتے ہیں تو پھر اپنے مسئلے خود حل کر سکتے ہیں۔ جن لوگوں کے والدین اپنے مسائل حل نہیں کر سکتے تھے اور ان کے بچپن میں اچھے رول ماڈل نہیں تھے توان کے لیے مسائل کا صحتمندانہ حل اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ تھیریپی میں جوڑے یہ سیکھتے ہیں کہ وہ اپنے مسائل کے حل میں اپنی انا کو کیسے دور رکھیں اور مل کر پیار و محبت سے کیسے مسائل کا حقیقت پسندانہ حل تلاش کریں۔ ہم جوڑوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ہر ہفتے اپنے گھر میں GREEN ZONE MEETING کریں اور آہستہ آہستہ اپنی مافی الضمیر کے اظہار کا اور دوسرے کی بات صبر و تحمل سے سننے کا فن سیکھیں۔ ایسی تھیریپی سے بہت سے جوڑوں نے اپنی شادی کو بچایا ہے اور اب وہ صحتمند اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

بعض جوڑے ایسے بھی ہیں کہ وہ ڈیٹنگ کے دوران تھیریپی لیتے ہیں تا کہ شادی کی کامیابی کی تیاری مکمل ہو۔ میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ چند ماہ پیشتر میرے پاس ایک جوڑا آیا اور کہنے لگا کہ میں انہیں COMMUNICATION SKILLS سکھائوں۔ ان کی کہانی سنی تو پتہ چلا کہ ان دونوں نے دس برس پیشتر نوجوانی میں ایک دوسرے سے شادی کی تھی۔ ایک سال تو ہنی مون رہا اور اس کے بعد وہ دونوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ پڑتے اور پھر انہوں نے طلاق لے لی۔ طلاق کے تین سال بعد شوہر نے کسی اور عورت سے اور پانچ سال بعد بیگم نے کسی اور مرد سے شادی کر لی۔ جب دونوں کی دوسری شادی بھی ناکام ہوئی تو وہ ایک دوسرے کو دوبارہ ملے اور پھر میرے پاس آئے۔ کہنے لگے ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں لیکن ہم اپنے نفسیاتی مسائل خود حل نہیں کر سکتے۔ ہمیں پیشہ ورانہ مدد چاہیے ہمیں تھیریپی چاہیے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک کامیاب شادی کے لیے محبت کافی نہیں ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail