لیوجی پیراندلو کی کہانی”جنگ‘‘


پتہ نہیں کیوں لیکن مجھے ہمیشہ ایسا لگتا ہے جیسے انسان کی زندگی کا سب سے خوبصورت زمانہ اُس کے بچپن کا ہوتا ہے۔ جب وہ نرم چاندنی راتوں میں، بنا پروں کے، بادلوں میں اڑان بھرتا ہے، بارش کی چھینٹوں میں خوب اُچھلتا ہے، دوڑتا ہے، شراتیں کرتا ہے اور اپنے ہم جولیوں کے ساتھ مل کر ننھی منی ناؤ کو پانی پر، ہولے ہولے احتیاط سے، تن تنہا روانہ کرتا ہے۔ سکول اور ساتھیوں کی ڈھیروں نہ ختم ہونے والی باتوں سے اپنے گھر والوں کے کان کھاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پراُن سے کبھی روٹھتا ہے تو کبھی انھیں مناتا ہے۔ اپنی تکلیف پر خود تو زاروقطارروتا ہی ہے، ساتھ اپنے پیاروں کو بھی رُلاتا ہے اور رات کو پھر، ہر دکھ، تکلیف اور تھکن سے بے نیاز ہو کر سنہری نیند کے جھونکے میں، نئی دنیاؤں میں اڑان بھرنے نکل جاتا ہے۔

بچپن کایہ اُجلا زمانہ شاید اِس لیے بھی خوبصورت ہوتا ہے کہ اِس میں بچوں کو اپنے پیاروں کی شفیق صورتوں میں، امن کی وہ محبت بھری پناہ گاہیں میسر ہوتی ہیں جو کسی بھی مطمئن زندگی کو حسین بنا دیتی ہیں۔ بے فکری کا یہ خوبصورت زمانہ، انسان کو زندگی کا وہ اعتماد بخشتا ہے جو اُسے ساری عمر مضبوطی سے اپنے قدموں پر کھڑا رکھتا ہے۔ لیکن یہی بچپن اگر غربت، بھوک، بد امنی، دہشت گردی اور جنگ جیسی ہولناکیوں کا شکار ہو جائے تو انسان کی شخصیت ر یزہ ریزہ ہو کر بکھرجاتی ہے۔ خوف اور دہشت کے واقعات تا عمر اُس کی آنکھوں میں نقش ہو جاتے ہیں۔ انسان چاہے بھی تو وحشت کے ان لمحوں سے نکل نہیں پاتا۔

کل شام ایک ایسی ہی ویڈیو دیکھی، جس میں ایک ننھا سا بچہ دنیا بھر کی عالمی طاقتوں سے رمضانِ کریم میں، امن کی ایک فریاد کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ آواز صرف اس بچے کی نہیں، بلکہ دنیا بھر کے اُن مظلوموں کی آواز ہے جسے ابھرنے سے پہلے ہی دبا دیا جاتا ہے۔ آواز کیا ہے، ایک التجا ہے، ایک فریادہے:

صدرِ محترم!
موت کی وہ کشتیاں
جو خوابوں کی سر زمین پر اُترتی ہیں
اُن بچوں کے بغیر،
جو دنیا بھر کے جرائدکا سرِ ورق بن پاتے

صدرِ محترم!
میں سو نہیں سکتا
میں جونہی اپنی آنکھیں بند کرتا ہوں، دھماکوں کی آوازوں سے سہم جاتا ہوں
میرا بستر دھویں اور آگ سے جھلسنے لگتا ہے
خوف ہر سو چھا جاتا ہے
سہانی لوریاں، آہ و زاریوں میں بدل جاتی ہیں
اور کھلونوں سے خون بہنے لگتا ہے

میں جانتی ہوں یہ ایک ایسی التجا ہے، جو ذاتی مفادات اور مقدس نظریات سے شکستہ سماعتوں تک شاید کبھی نہیں پہنچ پائے گی۔ یہ جنگ اوردہشت گردی کی سب سے مکروہ اور غیر انسانی صورت ہے، کہ جب عالمی طاقتیں اپنے مضموم مقاصد و نظریات کے حصول کے لیے، ننھے معصوم پھول جیسے بچوں کو بھی جنگ کی آگ میں جھونکنے سے گریز نہ کریں۔ ہم سب جانتے ہیں جنگ ایک صنعت ہے اور دنیا بھر کی عالمی طاقتیں جنگ کے احیاء اور اسے طول دینے پر جتنا پیسہ، طاقت اور ذہانت خرچ کرتی ہیں یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان ذاتی مفادات اور مقدس نظریات کے حصول کے تحت لڑی جانے والی جنگوں کا ایندھن، جب ایسے ننھے معصوم بچے اور مظلوم لوگ بنتے ہیں تب دنیا بھر میں امن و امان قائم کرنے کے دعویدار، نام نہاد عالمی امن کے اداروں کے وجود پر سوال اٹھتا ہے۔

بڑی عجیب سے بات تو یہ بھی ہے کہ بحیثیت ایک قوم، ہم بھی ماضی سے لے کر آج تک، جنگ کی جاہ وحشمت کو اپنے بچوں کو ایک شان اور رعب کے تحت پیش کرتے آئے ہیں۔ جنگ کے کارنامے فخریہ سنائے جاتے ہیں اورجنگ کی بھینٹ چڑھنے والوں کو بڑے فخر سے شہید گردانتے ہوئے، جنگ کی لرزہ خیز آب و تاب کو مزید بڑھا وا دیا جاتا ہے، اُن پیاروں کے تمام جذبات و احساسات سے یکسر بے نیاز ہو کر، جو جنگ کی بھینٹ چڑھنے والے ان معصوم لوگوں کے وجود سے ہمیشہ وابستہ رہے تھے۔ مجھے سسلی کے ادیب، لیوجی پیراندلو (Luigi Pirandello) کی کہانی” جنگ ‘‘ یاد آتی ہے، جس میں دوخستہ و غمزدہ بوڑھے والدین اپنے بیس سالہ بیٹے کو، مقدس ریاستی نظریات کے تحت، زبردستی جنگ پر بھیجنے کے لیے، الوداعی ملاقات کے لیے، ٹرین سے ’سلمونہ‘ نامی شہر کا سفر کرتے ہیں۔

ٹرین میں سفر کرنے والے مسافروں کی حالت بھی اُن سے چنداں مختلف نہیں۔ اُن میں سے بیشتر کے بچے یا توجنگی محاذوں پربھیجے جا چکے ہیں یا پھر وہ جنگ کے مقدس نظریات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے جب یہ بوڑھے میاں بیوی ان جنگی حالات کو برا بھلا کہتے ہیں تو ٹرین میں بیٹھا، ایک بوڑھا شخص بڑے جوش سے اٹھتا ہے اورسامنے آکر بتاتا ہے کہ وہ کس طرح آج تک اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر کرتا رہا ہے۔ ایک بیکار سی زندگی کو مقدس نظریات پر قربان کر دینے سے دل کو جو اطمینان حاصل ہوتا ہے، اُس کا بیان نہیں۔ وہ آج بھی اس راحت کو محسوس کر سکتا ہے۔ ٹرین میں بیٹھے تمام غمزدہ لوگ اُسے حیرت سے دیکھتے ہیں اور دل ہی دل میں اُس کی جرأت اور استقامت کو سراہتے ہوئے خود کو سرزنش کرتے ہیں۔ اُن کے اپنے دلوں میں بھی قناعت اور صبر اُترنے لگتا ہے۔

تبھی وہ بوڑھی عورت جو اب تک اپنے بیٹے کے جنگ پر زبردستی بھیجے جانے کے صدمے میں غمزدہ بیٹھی ہوئی تھی، ان باتوں کو سُن کر، بڑے حوصلے سے اُٹھتی ہے اور بڑے، ضبط اور ترستی آنکھوں سے اُس سے سوال کرتی ہے، ” تو۔ تو کیا تمہارا بیٹا واقعی مارا گیا؟ ‘‘

”ہر شخص نے اُس خاتون کو حیرت سے دیکھا۔ وہ بوڑھا شخص اُس کی طرف متوجہ ہوا، اپنی بڑی قرمزی، مرطوب اور خاکستری آنکھیں، اُس خاتون کے چہرے پر جما دیں۔ کچھ دیر تو اُس کو جواب دینے کی کوشش کی، لیکن پھرایک ماں کے ضبط کی تاب نہ لا سکا۔ ”اُس کا چہرہ بجھ گیا، حلیہ خوفناک حد تک بگڑ گیا۔ اُس نے بڑی عجلت میں جیب سے رومال نکالا۔ اور لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اُس کا ضبط پاش پاش ہو چکا تھا اور وہ بڑے دردناک اور دلخراش انداز میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ‘‘

آپ مانیں نہ مانیں!جنگی اغراض و مقاصد کو چاہے کتنے ہی خوشنما لبادوں اور مقدس نظریات میں ملفوف کر کے پیش کیا جائے، ان کی لرزہ خیز ہولناکیوں اور تباہیوں سے نظریں چرانا ممکن نہیں۔ میں سوچتی ہوں کیاکسی بھی ریاست کے نظریات اتنے مقدس اور اہم ہوتے ہیں کہ ان کی حفاظت اور سر بلندی پر ہزاروں معصوم انسانوں کو یوں واردیا جائے؟ انسان چاہے بظاہر، کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو جائے، اپنے پیاروں کی جدائی، ایک دیمک کی ماننداُسے اندر ہی اندر چاٹ جاتی ہے۔ بالکل ایسے جیسے وہ پھول، جو ان ہولناک تباہیوں کی نظر ہوتے ہیں، ان کی ماؤں کے کلیجے کبھی ٹھنڈے نہیں ہوتے اور لبوں کی فریاد کبھی دم نہیں توڑتی۔ میں جانتی ہوں آج عالمی طاقتوں کی، اس خودساختہ جنگ زدہ دنیا میں، امن اور آزادی کی فضا میں سانس لینے کا خواب، ایک دیوانے کا خواب سہی، لیکن ہم ایسے آشفتہ سروں کوامن کے ایسے مہکتے خواب دیکھنے کی آزادی تو ہونی چاہیے، کہ خواب تو خواب ہیں، ان پر گرفت بھلا کیسی؟ کہ یہ جن آنکھوں میں اترتے ہیں، انھیں امن کے نور سے روشن کر جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).