کتنا لکھیں، کیسے لکھیں اور کیسے شائع کروائیں؟


مغرب مشرق میں بہت فرق ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ یہاں الو بے وقوفی اور نحوست کی نشانی ہے اور مغرب میں وہ دانشمندی کی معراج پر فائز دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے ہاں شیر کے علاوہ کوئی دوسرا جانور کسی کا انتخابی نشان نہیں بن پاتا اور ادھر سپر پاور امریکہ میں گدھا بھی سب سے بڑی پارٹی کا قابل فخر نشان ٹھہرتا ہے اور سپر پاور کا صدر گدھا اڑائے پھرتا ہے۔

ادھر ہمارے دیس اور مغرب میں یہی متضاد معاملہ لکھنے کے باب میں بھی ہے۔ اردو میں عموماً زود گوئی یا بسیار گوئی کو برا سمجھتا جاتا ہے۔ لیکن انگریزی میں پرولیفیک رائٹر ہونا قابل رشک خوبی قرار دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا زیادہ لکھنا بری بات ہے؟

وسعت اللہ خان زیادہ لکھتے ہیں۔ ان کے سارے کالم ”اماں کا دل ایسا ہی تھا“ اور ”بخشو سب کا، بخشو کا کوئی نہیں“ کی طرح سپر ہٹ نہیں ہوتے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا کہ ان کا کوئی کالم پورا پڑھنے کے قابل نہ ہو۔ ان کے بیشتر کالموں کا معیار غیر معمولی ہوتا ہے اور وہ ہم جیسوں کے لئے قابلِ رشک ہیں۔ لیکن ان کی تحریر میں یہ خوبی یکلخت پیدا نہیں ہوئی۔ آپ ان کے دس گیارہ برس پہلے کے کالم دیکھیں۔ وہ ہفتے میں تین چار سو الفاظ کا بلاگ لکھتے تھے۔ آہستہ آہستہ الفاظ زیادہ ہوتے گئے اور درمیانی وقفہ کم۔ لیکن ان کی تحریر میں دلچسپی کا عنصر بھی بڑھتا گیا۔

زیادہ لکھنا غلط نہیں ہے۔ اہم چیز یہ ہے کہ معیار ایسا ہو کہ ہر تحریر کم از کم پوری پڑھنے کے قابل ہو اور دلچسپی کا عنصر رکھتی ہو۔ یہ نہ ہو کہ ریڈر شروع میں پہلے ایک دو پیراگراف پڑھ کر کالم بند کر دے، اور بعد میں تصویر دیکھ کر ہی کلک کرنے سے انکاری ہو جائے کہ اندر کچھ نہیں ہونا۔ آپ کی ہر تحریر ہر شخص کو پسند نہیں آئے گی۔ لیکن ایک مجموعی ریڈر شپ اہم ہے۔ ایک چیز یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ آپ کی تحریر میں علمی و تحقیقی پہلو جتنا زیادہ ہو گا، وہ اتنی کم پڑھی جائے گی، لیکن جو لوگ اسے پڑھیں گے وہ اہم ہوں گے اور وہ ہی آپ کی تحریر کی علمی قامت کا تعین کریں گے۔ اس لئے ایسی تحریر کے کم ویو دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہیے۔

ہر مصنف وقت گزرنے کے ساتھ بہتر ہوتا ہے۔ ابتدا میں اپنی تحریر پر زیادہ وقت لگانا چاہیے۔ پہلا ڈرافٹ لکھنے کے بعد اسے ایک طرف رکھ دیں اور چند گھنٹے بعد اسے دوبارہ ایڈٹ کریں۔ آپ اسے بہتر کر پائیں گے۔ ایک تحریر کی کم از کم ایک ریویژن ضرور کریں۔ جتنی زیادہ ریویژن ہوں گی تحریر اتنی زیادہ بہتر ہو گی۔ مشق ہونے پر بعد میں آپ کم وقت میں بھی آسانی سے اچھی تحریر لکھ پائیں گے۔ ساتھ ساتھ آپ جس طرز میں لکھنا چاہتے ہیں اس طرز کے لکھنے والوں کو پڑھنے میں وقت صرف کریں۔ رفتہ رفتہ آپ کو اپنی بات اچھے انداز میں کہنے کا فن آ جائے گا۔

بعض دیو قامت ادیب کہتے ہیں کہ کم سے کم لکھا کرو، اس سے دماغ میں ایک پریشر بلڈ ہوتا ہے، جب یہ پریشر بے انتہا بڑھ جائے تو جو شے لکھو گے وہ کمال ہو گی۔ یوسفی کا فرمانا ہے کہ تحریر لکھنے کے بعد اسے گھڑے میں ڈال دیا جائے اور چھے مہینے بعد نکال کر اس پر نظرثانی کی جائے۔ اس کے بعد لاجواب کشتہ تیار ہو گا۔ ادب میں تو یہ فارمولہ چلتا ہے لیکن کالم نگاری میں یہ اصول نہیں چل سکتا۔ کالم نگار کو حالات حاضرہ پر لکھنا ہوتا ہے۔ اس کے پاس سوچنے کے لئے چھے مہینے نہیں محض چھے گھنٹے ہوتے ہیں۔ کچھ کالم نگاروں نے ہفتے میں ایک کالم لکھنا ہوتا ہے ان کے پاس چھے دن ہوتے ہیں۔

تحریر لکھنے کا ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کسی موضوع پر فوراً لکھنے کی بجائے اس کا بنیادی خیال اپنے نوٹس میں محفوظ کر لیں۔ اس موضوع پر آپ غیر شعوری طور پر سوچتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد جب لکھنا ہو تو آپ بظاہر پندرہ منٹ آدھے گھنٹے میں پورا کالم لکھ ڈالتے ہیں لیکن اس کے پیچھے کئی دن کی فکر کارفرما ہوتی ہے۔ نوٹس قلم بند کرنے کی عادت ڈالنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب بھی آپ نے کوئی تحریر لکھنی ہو تو آپ کے پاس دس پندرہ مضامین کا بنیادی خاکہ موجود ہوتا ہے، اپنے موجودہ موڈ کے مطابق ان میں سے کسی پر بھی آپ لکھ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بیشتر نوٹس ضائع جائیں اور آپ ان میں سے صرف پندرہ بیس فیصد پر ہی لکھ پائیں۔ لیکن جو لکھیں گے اس کی کوالٹی اچھی ہو گی۔

جس ادارے کو آپ مضمون بھیج رہے ہیں، اس کی مضمون بھیجنے کی گائیڈ لائن کا ضرور مطالعہ کریں تاکہ آپ کا مضمون ابتدائی سیلیکشن لسٹ میں آ جائے۔ بیشتر ادارے یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کو بھیجا گیا مضمون ساتھ ہی چند سو دیگر اداروں کو بھی بھیجا جائے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ جب دوسرے بھی اسے شائع کر رہے ہیں تو ہم اس تحریر کو ایڈٹ کرنے میں اپنا وقت کیوں ضائع کریں۔ اپنی تحریریں بھیجنے میں مناسب وقفہ ضرور رکھیں۔ ورنہ اگر آپ اپنے مضامین کی کوالٹی کی وجہ سے ریڈرز یا ایڈیٹرز کے پسندیدہ مصنفین کی فہرست میں شامل نہ ہوں تو آپ کے مضامین نظرانداز کیے جانے لگیں گے۔

اگر آپ کے مضامین کے بارے میں ادارتی عملہ آپ کو کوئی ہدایت دے تو اس پر عمل کرنے کی کوشش کیا کریں۔ ادارتی عملہ اپنی سہولت، پالیسی اور تجربے کے پیش نظر آپ کو یہ ہدایات دیتا ہے تاکہ ادارتی عملہ آسانی سے اس مضمون کو شائع بھی کر سکے اور آپ کے مضمون کی ریڈر شپ بھی بڑھے۔ آپ ان ہدایات کو نظرانداز کریں گے تو ادارتی عملہ آپ کی تحریر کو نظرانداز کرنے لگے گا۔

مضمون بھیجنے کے بعد ادارے کی پالیسی کے مطابق مناسب وقفہ دینے کے بعد ہی اس کا سٹیٹس معلوم کریں۔ اگر آپ اپنا مضمون بھیجتے ہی ایڈیٹرز سے رابطہ کرنے لگتے ہیں اور دن کے پانچ فون یا میسیج کر ڈالتے ہیں تو ایڈیٹر آپ سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ بلا کسی دوسرے کے سر جائے۔ کوشش کریں کہ آپ کا پیغام نہیں بلکہ آپ کی تحریر خود اپنی سفارش بنے۔ کوئی شخص بھی چوبیس گھنٹے کام نہیں کرتا اور جس وقت وہ کام کرتا ہے تو فون یا میسیج نہیں بلکہ مضامین کی ایمیلز ہی دیکھتا ہے۔ ہاں اگر آپ اپنی محنت یا مضامین کی غیر معمولی کوالٹی کی وجہ سے کسی ادارے کے اہم مصنفین میں شامل ہونے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر الٹا وہ آپ سے رابطہ کرتے ہیں کہ مضمون لکھیں۔ ادارتی عملہ وہ مضامین پہلی فرصت میں لگانے کو تیار ہوتا ہے جن کو پڑھنا اور ایڈٹ کرنا اس کے لئے کام نہ ہو بلکہ ایک ریڈر کے طور پر بھی ایک پرلطف تجربہ ہو۔

ہم سب میں کیسے لکھا جائے
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar