وردی پوش ذہن کا مخمصہ اور جمہوریت


اکتوبر 2002 کی بات ہے کہ شعبہ فلسفہ، پنجاب یونیورسٹی، کے صدر شعبہ ڈاکٹر نعیم احمد صاحب کو کمانڈ اینڈ سٹاف کالج، کوئٹہ سے پندرہ روز کے لیے دو کورس پڑھانے کاایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی مصروفیات کی بنا پر معذرت کی اور اپنی جگہ میرا نام بھیج دیا۔ وہاں سے میرے نام کی منظوری آ گئی۔ میں تین نومبر کو کوئٹہ پہنچا اور اگلے روز تدریس کا آغاز ہوا۔

کورس کے شرکا پاک فوج کے میجر لیول کے افسران ہوتے ہیں اور اس کورس کی تکمیل کے بعد ان کی اگلے رینک میں پروموشن ہوتی ہے۔ شرکا میں لیکن ایک افسر ابھی کیپٹن تھا اور ایک مصری فوج کا کرنل بھی شامل تھا۔ دو سیکشن تھے۔ ایک سیکشن کو  Creative and Critical Thinkingکا کورس پڑھانا تھا، دوسرے کورس کا عنوان تھا :Nietzsche and Iqbal

اقبال کی شاعری یا فلسفے پر بات ہو تو امت مسلمہ کا ذکر لازمی ٹھہرتا ہے۔ ایک دن امت مسلمہ کے پر گفتگو شروع ہوئی تو مجھے کچھ شرارت سوجھی۔ میں نے کہا برادر اسلامی ملک مصر سے آنے والے مہمان سے پوچھ لیتے ہیں کہ وہ ترکوں کو امت مسلمہ کا حصہ سمجھتے ہیں یا نہیں۔ اس مصری کرنل نے بآواز بلند کہا : نہیں۔ میں نے پاکستانی شرکا سے کہا اس تصور کی حقیقت اس جواب سے آپ کی سمجھ میں آ جانی چاہیے۔

اس وقت انتخابات ہو چکے تھے اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جا چکا تھا۔ ارکان کی حلف برداری کی تقریب وہیں ٹی وی پر دیکھی تھی۔ ایک دن کلاس میں کسی نے سوال پوچھا کہ فوجی حکومت کے متعلق میری کیا رائے ہے۔ میں نے کہا یہ مناسب مقام نہیں اس سوال کا جواب دینے کے لیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اندر بات سننے کا حوصلہ ہے، آپ نے جو کہنا ہے کہہ دیجیے۔ میں نے کہا سب سے پہلے اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کی فوج آئین کے تحت کوئی ادارہ ہے یا اس سے بالاتر ہے۔ اس پر وہی راگ سننے کو ملا کہ سیاست دان کرپٹ ہیں اور ملک کو غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دفن کر دیا ہے۔

میں نے پوچھا آپ کو پتہ ہے قرضے لینے کی ابتدا کس نے کی تھی۔ جب ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اس وقت ملک پر 21کروڑ روپے کا غیر ملکی قرضہ تھا جو 1965تک 1235 کروڑ تک پہنچ چکا تھا۔ فوجی حکومت کے دور میں کھلے دل سے قرضے لیے گئے اور کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کے بجائے اسلام آباد کی تعمیر شروع کر دی گئی جو ایک مجرمانہ اقدام تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی وقت ہمیں نئے کیپیٹل کی تعمیر کرنا پڑتی لیکن اگر وہ اپنی کمائی سے کرتے تو اس میں کوئی حرج نہ ہوتا۔ ہم نے پورے ملک کا ترقیاتی بجٹ ایک شہر پر لگا دیا۔ یہ شدید ناانصافی تھی جس نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں غلط فہمیاں پیدا کیں جن کے نتیجے میں بالآخر ہمارا ملک دو لخت ہو گیا۔

ہماری خارجہ پالیسی میں گڑبڑ اسی دور میں ہوئی۔ جمہوری دور کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول تھا: اپنی آزادی اور ملک کی جغرافیائی سالمیت کا تحفظ۔ اس دور میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ پاکستان کسی بین الاقوامی تنازعہ میں ملوث نہیں ہو گا۔ یہی وجہ تھی کہ امریکہ کے شدید دباؤ اور متعدد ترغیبات کے باوجود پاکستان نے کوریا کی جنگ میں فوج بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔

ایوب خان نے حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی اپنے عزائم اور منصوبوں کا اعلان کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس کے ذہن کی تشکیل برطانوی دور کی لکھی گئی نصابی کتب سے ہوئی تھی۔ ان کتابوں میں روس کی جنوب کی جانب پیش قدمی اور گرم پانیوں تک اس کی رسائی کی شدید خواہش پر بہت زور دیا جاتا تھا ۔ 1958 کی گرمیوں میں ایوب خان نے لندن میں ایک تقریر کی تھی۔ اس نے امریکہ کو یہ مشورہ دیا کہ وہ برطانوی ماڈل کی پیروی کرے جس نے زمینی افواج میں کرائے کے فوجی استعمال کرتے ہوئے سلطنت کے دوردراز علاقوں پر اپنا تسلط قائم رکھا تھا۔ اس نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ آپ ہمیں لڑائی کے وسائل فراہم کریں، ہم کمیونزم کے خلاف لڑنے والے افراد مہیا کریں گے۔

وطن پاک کے نوجوانوں کو کرائے کے فوجی بنا کر پرائی جنگ میں دھکیلنے کی سوچ کیا یہ نقطہ آغاز تھا۔ اسی پالیسی کے تحت ایوب خان نے امریکہ کو بڈابیر کا اڈا فراہم کیا جہاں سے روس کی جاسوسی کے لیے یو ٹو طیارے نے اڑان بھری تھی۔ یہ پاکستان کی طرف سے روس کے خلاف پہلا غیر دوستانہ اقدام تھا، جس کی بعد میں پاکستان کو بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔

 حماقتوں کی اس طویل داستان کو مختصر کرتے ہوئے ہم پینسٹھ کی جنگ پر آ جاتے ہیں۔ جنگی تاریخ میں اس سے زیادہ احمقانہ منصوبے شاید بہت کم بنائے گئے ہوں گے۔ سوال پید اہوتا ہے کہ بھارت اور چین کے تنازعے کے دوران میں اس معاملے سے دور رہنے کا ایوب خان نے جو فیصلہ کیا تھا وہ اس کی سیاسی زندگی کا شاید واحد دانش مندانہ فیصلہ تھا ۔ صرف تین برس بعد وہ شخص اس حماقت مآب منصوبے کا موید کیوں کر بن گیا۔ بعض لوگ اس کی ذمہ داری بھی ذوالفقار علی بھٹو صاحب پر ڈالتے ہیں کہ دفتر خارجہ نے بھارت کے بین الاقوامی سرحد عبور نہ کرنے کا یقین دلایا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ دفتر خارجہ نے ایسا کہا ہو لیکن فیلڈ مارشل صاحب کو آپریشن جبرالٹر کے فوجی مضمرات اور عواقب کا بخوبی علم ہونا چاہیے تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس برس جنوری میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں دھاندلی کرکے جیتنے کی بنا پر ایوب خان حکومت کی اخلاقی ساکھ بالکل ختم ہو چکی تھی۔ اس کو بحال کرنے کی خاطر اس نے یہ احمقانہ داؤ کھیلا تھا۔

جنگ بندی قبول کرنے کے بعد دسمبر میں ایوب خان نے برصغیر میں امن کے حصول اور تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل میں حمایت حاصل کرنے کے لیے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ تاہم اس دورے سے چند دن قبل امریکی محکمہ اطلاعات نے ایک نیم سرکاری پریس ریلیز جاری کی تھی جس میں بہت ناملائم الفاظ استعمال کرتے ہوئے واضح کیا گیا تھا کہ صدر جانسن سخت رویہ اختیار کریں گے۔ دورے کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ جن لوگوں کو سیاست سے تازہ تازہ دلچسپی پیدا ہوئی ہے اور وہ امریکہ میں ایوب خان کے استقبال کی فلمیں دکھا کر فخر کا اظہار کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس دوسرے دورے میں جو سلوک ہوا تھا اس پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔

ہمارے فوجی ذہن کا مخمصہ یہ ہے کہ انھیں برطانیہ کی ہر چیز دل و جان سے عزیز ہے سوائے پارلیمانی جمہوریت کے۔ جمہوریت کی بیڑی میں وٹے ڈالنے کا کام اولین فوجی حکومت نے شروع کیا تھا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).