نئے صوبوں کا قیام وفاق کی بقا کا مسئلہ ہے


پنجاب کے کسان بڑے کھیت کو پانی سے سیراب کرنے کے لئے کھیت کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرلیتے ہیں تاکہ کھیت کے ہر کونے میں موجود فصل کے ہر پودے تک پانی پہنچ سکے۔ یہ بہت آسان طریقہ ہے۔ ورنہ بہت زیادہ پانی ضائع ہوجاتا ہے اور کھیت بھی مکمل طور پر سیراب نہیں ہوتا ہے۔ کھیت جدھر پانی نہیں پہنچ پاتا ہے۔ وہاں فصل نہیں ہوتی ہے۔ اگے ہوئے پودے بھی سوکھ جاتے ہیں اور کسان کھیت کے چھوٹے چھوٹے حصے کر کے پانی سارے کھیت کو نہیں دیتا ہے تو آخر کار کھیت کے وہ حصے جو مسلسل پانی سے محروم رہتے ہیں وہاں ہل نہیں چلایا جا سکتا ہے۔ وہ حصے بانجھ پن کر شکار ہوکر ویرانے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔  ویرانے سے مراد ہے مرگ یعنی کھیت کے کچھ حصوں کی موت واقع ہوچکی ہے۔ اس کانقصان محض صرف کسان کو نہیں ہوتا ہے بلکہ پیداور میں ہونی والی کمی سے ملک وقوم متاثر ہوتے ہیں ہیں۔

یہی حال کچھ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا ہے۔ جس کا لاہور تو پوری طرح فیضاب ہوتا ہے لیکن پنجاب کے باقی حصے کتنا فیضاب ہوتے ہیں اس امر سے ہر پاکستانی بخوبی آگاہ ہے۔ پنجاب کی تقیسم کا مطالبہ وسائل کی بہتر تقسیم کے لئے کیا جاتا ہے تاکہ پنجاب کے ہر شہری تک وسائل کا فیض پہنچے اور ہر شہری اطمینان محسوس کرے۔

نئے صوبوں کے قیام کے لئے کوئی بھی بنیاد لی جا سکتی ہے اگر کوئی علاقہ لسانی بنیاد فراہم کرتا ہے جیسے پوٹھوہار اور سرائیکی صوبے کی بات کی جاتی ہے تو وہاں لسانی بنیادوں پر صوبہ بنانے میں کوئی قباحت نہیں۔ صوبے بنا کر کسی اور ملک کے انتظام میں جانے کا کوئی دور دور بھی خطرہ موجود نہیں ہے۔  صوبے وفاق کی اکائیاں ہوتے ہیں۔ وفاق پاکستان اس عہد سے گزر رہا ہے جس میں نئے معاہدوں ،نئے بیانیہ اور نئے صوبوں کی اشد ضرورت ہے۔  حالات تعمیر نو،تشکیل نو کا تقاضا کر رہے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہوں یا ریاستی ادارے انہیں ہوش مندی سے حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ صرف نظر کرنے سے مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ ہی مسائل سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ درپیش مسائل کی نوعیت دن بدن تبدیل ہو رہی ہے۔ کچھ برس پہلے روزگار ،مہنگائی کا مسلہ زیادہ شدید نظر آتا تھا۔ اب دہشت گردی،پانی کی قلت ،خوراک کی قلت سمیت کئی اور سنگین مسائل سر اٹھا رہے ہیں۔ پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں بے چینی کی کیفیت ہے۔ نئے صوبوں کے مطالبے شوقیہ نہیں کیے جا رہے ہیں۔ جن علاقوں سے صوبوں کے قیام کے لئے آوازیں اٹھ رہی ہیں وہاں بے تحاشا مسائل ،احساس محرومی اور حکمران طبقات کی عدم توجہی ہے۔ جس کے باعث ان علاقوں کے عوام اس امر پر سوچنے کے لئے مجبور ہوئے ہیں کہ وہ اپنے علاقوں کو انتظامی طورپر الگ کرکے اپنے حالات کار بہتر بنا سکتے ہیں اور مسائل سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔

اپنے وسائل اپنے علاقے میں خرچ کیے جائیں گے تویقینی بات ہے کہ مسائل ضرور کم ہونگے۔ عمومی مسائل کے لئے بھی لمبے سفر سے جان چھوٹے گی۔ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ اس حقیقت سے اب انکار ممکن نہیں رہا کہ پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام کی گنجائش موجود ہے۔ اب کوئی حکومت ہو یا ریاست کے وہ ادارے جو ریاستی امور کنٹرول کرتے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے پہلوتہی نہیں برت سکتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر کسی نے اس معاملے پر رعونت  کا مظاہرہ کیا ا ور زبردستی صوبوں کے قیام کی آواز دبانے کی کوشش کی تو ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ ملک کی بڑی سیاسی پارٹیاں کچھ اپنی کرتوتوں کے باعث سکڑ رہی ہیں اور کچھ کو زیریں اور بالا ہاتھ صوبوں تک محدود کر رہے ہیں۔

اے این پی، ایم کیو ایم اور بلوچستان نیشنل پارٹی جیسی جماعتیں پہلے ہی صوبائی سطح کی پارٹیاں ہیں۔ جن میں سیاسی رسہ کشی صوبائی حکومت کے لئے ہی ہو گی اور وفاق میں کئی پارٹیاں مل کر بھی حکومت بنانے میں ناکامی کا منہ دیکھنے پر مجبور ہوں گی۔ نئے صوبوں کے قیام سے نہ صرف سیاسی صورتحال بہتر ہوگی بلکہ مقامی سطح پر مسائل کے حل میں بھی خاطر خواہ مدد ملے گی۔  نئے صوبوں کا قیام ایک عوامی امنگوں کی تکمیل ہے اور دوسری جانب وفاق کی بقا کا بھی مسئلہ ہے۔  نئے صوبوں کے قیام سے وفاق توانا اور مضبوط ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).