تخلیقی بارش سے تخلیقی چشمے تک


میں نے جب ’ہم سب‘ کے پرولیفیک اور پاپولر مدیر عدنان کاکڑ کا کالم ’کتنا لکھیں، کیسے لکھیں‘ پڑھا جس میں انہوں نے نئے لکھنے والوں کو چند مفید مشورے دیے ہیں تو میں نے سوچا کیوں نہ میں بھی ’ہم سب‘ کے لکھاریوں اور قاریوں سے اپنے تخلیقی تجربات شیر کروں۔

میری زندگی کا ایک وہ دور تھا جب دو چار مہینوں کے بعد ایک غزل یا نظم یا افسانہ تخلیق ہو جاتے تھے اور اس کے بعد ایک طویل خاموشی۔ میں کئی ہفتوں اور مہینوں اس تخلیقی کیفیت کا انتظار کرتا رہتا تھا۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ جب مجھ پر غزل یا نظم وارد ہو رہی ہوتی تھی تو میں تخلیقی بارش میں بھیگ رہا ہوتا تھا۔ لیکن پھر خشک سالی۔ وہ بارش میرے اختیار میں نہ ہوتی تھی۔ وہ میری مرضی سے نہیں برستی تھی۔ میں بس اس کا انتظار کرتا رہتا تھا۔ یوں لگتا تھا وہ غزل‘ نظم یا افسانہ کہیں غیب سے آتا تھا جو میرے اختیار میں نہ تھا۔ اسی لیے غالب فرماتے ہیں

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب سریرِ خامہ نوائے سروش ہے

جس آواز کو غالب نے نوائے سروش، فرشتے کی آواز، کہا ہے اسے یونانی روایت میں MUSE کہا جاتا ہے۔ یونانی کہتے ہیں کہ جب شاعر اور ادیب کے پاس میوس آتی ہے تو وہ اسے ایک فن پارے کا تحفہ پیش کرتی ہے۔ یہ میوس کیا ہے؟ کہاں رہتی ہے؟ بعض شاعروں اور ادیبوں کے پاس اکثر اور بعض کے پاس کبھی کبھار کیوں آتی ہے؟ میں نجانے کب سے ایک شاعر اور ایک ماہرِ نفسیات ہونے کے ناطے اس راز کو جاننے کی کوشش کر رہا ہوں۔

اور اب چند سالوں سے میری زندگی کا نیا دور چل رہا ہے جس میں میں ہر ہفتے کچھ نہ کچھ تخلیق کرتا رہتا ہوں۔ یوں لگتا ہے کہ اس تخلیقی بارش نے ایک چشمے کی صورت اختیار کر لی ہے جو میرے اندر بہتا رہتا رہتا ہے۔ اب میرے پاس میری میوس جلد جلد آتی ہے مجھے انتظار نہیں کراتی۔ نئے نئے تحفے لے کر آتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میری تخلیقی بارش چشمے میں کیسے تبدیل ہوئی؟ یہ ایک پراسرار سفر ہے۔ میں اس تخلیقی سفر کے چند سنگِ میل آپ سے شیر کرنا چاہتا ہوں ہو سکتا ہے اس سے کوئی شاعر، ادیب یا دانشور استفادہ کر سکے۔ اس راز کا تعلق انسانی لاشعور سے ہے۔ وہی لاشعور جس کا تعلق ہمارے خوابوں سے بھی ہے۔

اب میں آپ کو نفسیاتی حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ ایک دن میں نے ایک ماہرِ نفسیات کی ڈائری پڑھی جس میں اس نے لکھا تھا کہ اس نے اپنی ایک مریضہ سے کہہ رکھا تھا کہ وہ اپنا خواب لکھ لیا کرے تا کہ بھول نہ جائے کیونکہ وہ ماہرِ نفسیات تھیریپی میں اس مریضہ کے خواب کا تجزیہ کرتا تھا۔ ایک دن مریضہ نے کہا کہ اسے اپنا خواب یاد نہ رہا تھا۔ ماہرِ نفسیات نے اسے کہا کہ میں چائے بناتا ہوں تم یہیں بیٹھے بیٹھے ایک خواب گھڑ لو اور ہم اس خواب کا تجزیہ کریں گے۔

اس دن جب وہ مریضہ گھر گئی تو وہ اپنے آپ سے شرمندہ تھی۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس نے اپنے ماہرِ نفسیات کو مایوس کیا ہو۔ چانچہ وہ بازار گئی اور اس نے ایک ڈائری خریدی اور اس کے سرِ ورق پر لکھا۔ خوابوں کی ڈائری۔ وہ مریضہ وہ ڈائری اپنے سرہانے کے نیچے رکھتی۔ اور جب صبح اٹھتی تو اپنے آپ سے پوچھتی۔ میں نے رات کو کیا خواب دیکھا ہے؟ جب سے اس نے ڈائری لکھنی شروع کی تھی۔ اس کی یادداشت بہتر ہو گئی تھی اور اسے خواب زیادہ یاد رہنے لگے تھے۔

جب میں نے وہ واقعہ پڑھا تو مجھے خیال آیا کہ تخلیقی تحفوں اور خوابوں کا آپس میں ایک رشتہ ہے دونوں کا تعلق لاشعور سے ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر وہ مریضہ اپنی ڈائری کی وساطت سے اپنے خوابوں سے بہتر رشتہ بنا سکتی ہے تو شاعر اور ادیب بھی اپنے میوس سے بہتر رشتہ جوڑ سکتے ہیں تا کہ وہ ان کے لیے تخلیقی تحفے جلد جلد لایا کرے۔

چنانچہ میں نے اپنے سرہانے ایک ڈائری رکھنی شروع کی اور میوس کا انتظار کرنے لگا۔ پچھلے چند سالوں میں آہستہ آہستہ تخلیقی بارش نے تخلیقی چشمے کا روپ اختیار کر لیا ہے اور میری تخلیقی صلاحتیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس سفر میں میں نے اپنے لاشعور کے بارے میں چند باتیں سیکھی ہیں۔ ان کی وجہ سے میری زندگی میں چند تبدیلیاں آئی ہیں۔ جن کا میں اختصار کے ساتھ ذکر کتنا چاہتا ہوں تا کہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ کہ بارش چشمے میں کیسے تبدیل ہوئی۔

پہلی تبدیلی یہ ہے کہ اب میں ہفتہ، اتوار، پیر اور منگل کو صبح کے وقت تخلیقی کام کرتا ہوں۔   میں اپنے سرہانے چند کاغذ اور قلم رکھتا ہوں۔ میں سونے سے پہلے اپنے لاشعور میں نیا خیال ڈال دیتا ہوں۔ جب صبح اٹھتا ہوں تو میری میوس صبح کی چائے کی طرح میرے لیے تخلیقی تحفہ لے کر آتی ہے۔

دوسری تبدیلی یہ کہ میں اپنے لیے تخلیقی پروجیکٹ تیار رکھتا ہوں۔ اگر میں کوئی نیا افسانہ یا مضمون نہیں لکھ رہا ہوتا تو کسی اور ادیب کا شہہ پارہ ترجمہ کرتا ہوں یا کسی کی کتاب پر ریویو لکھتا ہوں۔ دوسروں کی ادبی تخلیقات بھی مجھے تخلیقی فضا میں رکھتی ہیں۔

تیسری تبدیلی یہ ہے کہ میں اپنے شاعر ادیب اور دانشور دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہتا ہوں۔ وہ مجھے اپنی تخلیقات اور میں انہیں اپنی تخلیقات سناتا یا بھیجتا ہوں۔ تخلیقی دوستوں سے ادب اور فنونَ لطیفہ پہ تبادلہِ خیال کرنا بھی میری تخلیقی صلاحیتوں کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ ’ہم سب‘ پر ہر ہفتے کالم لکھنا اسی تبدیلی کا حصہ ہے۔

چوتھی تبدیلی یہ ہے کہ میں چند ہفتوں کے کام کے بعد چند دن کی چھٹیاں لے لیتا ہوں۔ ان چھٹیوں کے دوران میں اپنی نامکمل تخلیقات کو مکمل کرتا ہوں اور پھر انہیں ترتیب دیتا ہوں۔ وہ کام جو میں کلینک کی روٹین کے دوران نہیں کر سکتا وہ میں اپنی چھٹیوں کے دوران کر لیتا ہوں کیونکہ مجھے چھٹیوں میں یکسوئی مل جاتی ہے۔

جوں جوں میں نے اپنی زندگی میں یہ تبدیلیاں پیدا کی ہیں آہستہ آہستہ میری تخلیقی بارش نے ایک چشمے کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اب میری اپنی میوس سے دوستی ہو گئی ہے۔ بعض دفعہ میں اپنے کنیڈین اور پاکستانی دوستوں سے مسکراتے ہوئے کہتا ہوں کہ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ باقی ادیبوں کی ایک میوس ہوتی ہے لیکن میری دو میوس ہیں۔ ایک میوس اردو کے اور ایک انگریزی کے تحفے لاتی ہے۔ بعض دفعہ میری محبوباؤں کی طرح ان میوسوں میں بھی رقابت پیدا ہو جاتی ہے۔

آخر میں میں ایک وضاحت کرتا چلوں۔ میرے اس کالم کا یہ موضوع نہیں ہے کہ کسی شاعر یا دانشور میں کتنی تخلیقی صلاحیت ہے اور وہ کس معیار کا ادب تخلیق کرتا ہے ؎ فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر شاعر اور ادیب کوشش کریں تو وہ اپنے لاشعور کو بہتر سمجھ سکتے ہیں اور اگر ریاض کریں تو اپنی میوس سے دوستی کر سکتے ہیں۔ موسیقاروں کی طرح شاعروں اور ادیبوں کو بھی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ شاعر اور دانشور کو جو غیب کی آواز سنائی دیتی ہے وہ کوئی فرشتہ لے کر نہیں آتا وہ ہماراپنا ہی لاشعور ہے اور اگر ہم چاہیں تو ہم اپنے لاشعور کی تربیت کر سکتے ہیں تا کہ ہم ایک کامیاب شاعر، ادیب اور دانشور بن سکیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail