چراغ دین خاکروب کا داماد اور ہم سب


جون کا مہینہ تھا اور گرمیاں اپنے جوبن پر۔ چراغ دین خاکروب کا داماد کچھ دن کے لئے پہلی بار اپنے سسرال یعنی چراغ دین کے گھر آیا تو اسکی خوب خاطر تواضع کی گئی جیسا کہ برصغیر میں رواج ہے کہ داماد کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ رات کو سونے کے لئے سرِ شام ہی تیاریاں شروع کر دی گئیں اور چراغ دین کی ہدایت پر اس کے داماد کا بستر گھر کی سب سے صاف ستھری جگہ یعنی چھت پر لگایا گیا اور وہ بھی اس شان سے کہ پہلے تازہ پانی کا چھڑکاؤ کیا گیا پھر چارپائی پر بھی ہلکا سا چھڑکاؤ کر کے پائنتی پر ایک عدد “کھیس” تہہ کر کے بچھایا گیا اور سرہانے تکئے کے ساتھ ساتھ ایک گاؤ تکیہ بھی لگادیا گیا اور ساتھ میں حُقہ تازہ کر کے لگا دیا گیا۔ ایک عدد ہاتھ والا پنکھا بھی چارپائی پر رکھ دیا گیا۔

چراغ دین کا داماد جب سونے کے لئے آیا تو یہ تمام انتظامات دیکھر کر حیران رہ گیا یہ سب کچھ اس کے لئے کسی شاہی انتظام سے کم نہ تھا۔ خیر جب وہ سویا تو ایسی پر سکون نیند آئی جو اس نے پوری زندگی محسوس نہ کی تھی صبح خوب تازہ دم ہو کر اٹھا اور اپنے سسرال سے مرعوب اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہوتا چلا گیا۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ جب بھی کوئی غیر معمولی چیز دیکھتا ہے تو اس کا موازنہ اپنے پاس موجود اشیا یا سہولیات سے کرنا شروع کر دیتا ہے اور پھر تیزی سے ان سب چیزوں کے حصول کی آرزو میں تگ و دو شروع کر دیتا ہے۔ چراغ دین کے داماد نے بھی ایسا ہی کیا۔ اور جوں جوں وہ اپنے گھر اور سونے کی جگہ کا موازنہ چراغ دین کے گھر لگائے گئے بستر اور باقی انتظامات سے کرتا جاتا تھا ویسے ویسے اس پر یہ انکشاف ہوتا جارہا تھا کہ وہ سونے کے معاملے میں کس قدر اُجڈ اور لا پرواہ انسان ہے۔ نہ اسے مچھروں کی پرواہ نہ چھڑکاؤ اور نہ ہی اس نے کبھی حُقّے کا تکلف کیا حالانکہ یہ سب کتنا ضروری ہے پر سکون نیند کیلئے۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا اور تہیہ کیا کہ وہ بھی اپنے گھر جا کر شام کو سونے کے واسطے ایسے ہی انتظامات کیا کرے گا۔

چراغ دین کا داماد کچھ ماہ اپنے سسرال قیام کرنے کے بعد پیدل اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا۔ ان دنوں سفر کے ذرائع پیدل یا گھوڑے اور دیگر جانور ہی تھے لیکن جانور صرف امراء کو میسر ہوتے اور عام لوگ پیدل ہی سفر کرتے لہٰذا ان کا سفر دنوں اور مہینوں کا ہوا کرتا تھا تو چراغ دین کے داماد کو بھی سفر میں ڈیڑھ دو ماہ لگ گئے اور جب وہ گھر پہنچا تو پوہ کا جاڑا یعنی دسمبر اپنے جوبن پر تھا۔ بس چراغ دین کے داماد نے گھر پہنچتے ہی اُودھم برپا کر دیا اور بیوی کو بالکل وہی انتظامات چھت پر کرنے کی سخت ہدایات جاری کر دیں اور ایک لمبا لیکچر پلایا کہ کیسے پرسکون ماحول کا نیند پر کتنا گہرا اثر ہے۔ بیوی پہلے تو حیرت سے اسکا منہ تکتی رہی اور اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب وہ باز نہ آیا تو بیچاری مجوراً اس کا بستر چھت پر لگا آئی۔

صبح جب دن چڑھے تک چراغ دین کا داماد نیچے نہ آیا تو گھر والے اوپر پہنچے جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ وہ چارپائی پر مردہ حالت میں پڑا ہے اور ساری رات سخت سردی میں گیلی چارپائی پر پڑے رہنے کی وجہ سے اس کا پورا جسم اکڑ چکا ہے۔ سب کفِ افسوس مل رہے تھے اور آہ و بکا کررہے تھے کہ کسی ہمسائی نے جو اس پورے وقوعہ سے آگاہ تھی منڈیر سے جو یہ منظر دیکھا تو اسکی بیوی سے تعزیت کے انداز میں بولی جب کوئی بغیر سوچے سمجھے دوسروں کی ریس کرے گا تو ایسے ہی سوکھے تِل چبائے گا جیسے یہ چبا رہا ہے۔ (رات بھر اوس میں اکڑ جانے کی وجہ سے اس کے جبڑے بالکل ایسے ہو گئے تھے گویا وہ سوکھے اور خستہ تِل چبا رہا ہے۔)

مجھے یہ واقعہ بچپن میں میری والدہ نے سنایا تھا۔ جب بھی میں کوئی بونگی مارنے لگتا یا خلافِ حالات کوئی کام کرنے لگتا تو والدہ محترمہ مجھے تنبیہہ کے انداز میں باور کرادیتیں کہ محمدعلی ! خاکروب کے داماد والے کام نہ کرو۔ ہر کام کا ایک مناسب طریقہ کار اور حالات ہوتے ہیں۔ اسکے بغیر وہ کام الٹا نقصان کا باعث بنتا ہے۔

میں نے آج تک اپنی والدہ محترمہ کی یہ بات پلے باندھی ہوئی ہے۔ لیکن آج جب میں اپنے اردگرد نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ہم 22 کروڑ لوگ چراغ دین خاکروب کے داماد بن چکے ہیں اور اسی طرح لائی لگ اور احساس کمتری کا شکار ہوچکے ہیں۔

مذہب سے لیکر انفارمیشن ٹیکنالوجی تک کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں ہم ہر شعبے میں صرف اور صرف ایک کام کر رہے ہیں اور وہ ہے دوسروں کی رِیس۔ ہم بجائے خود کوئی دریافت ، ایجاد یا ریسرچ کرنے کے آج تک دوسروں کی ریس میں اپنی اپنی ٹوٹی پھوٹی گاڑیاں گھسیٹ رہے ہیں۔ کبھی ہم سعودیہ کی نقل میں مساجد کی صفوں میں کرسیاں لا کر رکھ دیتے ہیں تو کبھی تُرکی اور دیگر یورپی ممالک میں میٹرو ٹرین دیکھ کر وہی میٹرو لاہور میں بنانے لگ جاتے ہیں۔ ہم کھانے پینے میں بھی نقالی کے ماہر ہو چکے ہیں۔ دنیا کی ہر قوم کا اپنا ایک خاص “کُوزین” ہوتا ہے جو اس قوم کی ثقافت کا عکاس ہوا کرتا ہے مثلاً آپ اگر گوروں کا کھانا دیکھیں تو دوسری جنگِ عظیم کے بعد شدید معاشی بحران پر قابو پانے کے لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ گھر کا ہر فرد کام کرے گا لہٰذا عورتیں بھی مردوں کی طرح ٹائی لگا اور شرٹ پہن دفاتر جانے لگیں۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں گھروں میں کھانا بننا تقریباً بند ہوگیا جس نے فاسٹ فوڈ کی انڈسٹری کو جنم دیا اور آج یہی فاسٹ فوڈ ان کا معمول بن چکی ہے۔ اسی طرح دوسری اقوام کے کُوزین کو دیکھر بھی کچھ خاص چیزیں سامنے آتی ہیں مثلاً افغانی قہوہ بہت پیتے ہیں۔ عربی اونٹ کا گوشت شوق سے کھاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

ہمارے یہاں جو کُوزین ہے وہ دنیا کے200 ممالک میں استعمال ہونے والی خوراک کا ملغوبہ بن چکا ہے اور اس میں پکوڑوں سے لیکر “پران” (جھینگے اور کیکڑے) تک دنیا کی ہر قوم کی خوراک موجود ہے۔ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ ملک کے کسی بھی فائیو سٹار افطار بُفے ڈنر میں شرکت کر لیں۔

تعلیم کے شعبے میں ہم ہر وہ ڈگری اپنے ملک میں شروع کروا رہے ہیں جسکے بارے ہماری یونیورسٹیوں تک کو پوری معلومات نہیں ہیں کہ اس شعبہ کا دائرہ کار اصل میں ہے کیا اور اس سے ہم کیا کیا کام لے سکتے ہیں۔

مذہب کے بارے میں ہماری فہم کا یہ عالم ہے کہ ہمارے کسی ایک عالمِ دین کی بھی اپنی کوئی رائے یا ریسرچ نہیں ہے۔ ہر مولوی جو خود کو عالم دین بلاتا ہے یا تو جہالت میں گُندھا ہوا خطاب کرتا ہے یا پھر سعودی اور ایرانی علماء کی کتابوں کے حوالے دیے اور 100 ,150 فارسی اشعار سنا کر، واہ واہ لے کر اور اپنے ہاتھ پیر چموا کر اپنی مذہب کی دکان چلارہا ہے۔ نتیجتاً آدھی قوم سعودیہ کے پیچھے چل رہی ہے کچھ ایران کے اور باقی انیسویں صدی کے ہندوستانی علما کرام کے پیچھے۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ان میں سے کسی کو نہیں مانتا صرف اپنے “مرشد پاک” کی بات کو حرف آخر سمجھتا ہے اور مرشد کی بلی تک کا مزار بنوا کر اسے درگاہ کا درجہ دیتا ہے چاہے مرشد گالیاں دیتا ہو یا بندے مرواتا ہو اس طبقے کو اس سے کوئی غرض نہیں۔

صحت کی طرف آجائیں تو ہم میں سے ہر ایک نہ صرف ڈاکٹر بلکہ ہر شعبے کا کنسلٹنٹ بھی ہے۔ آپ کوئی بیماری کسی سے پوچھ لیں وہ آپ کو پورا نسخہ بھی دے گا ساتھ میں احتیاطی تدابیر بھی بتائے گا جن کی وجہ سے یہ بیماری ہوتی ہے۔ دنیا میں ویاگرا اور سلاجیت کے سب سے زیادہ پریسکرائبر بھی یہاں موجود ہیں۔

انٹرنیشنل ریلشنز اور گلوبل افئیرز کو ڈسکس کرنے میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ میں نے کل بازار میں ایک کھجور والے سے رمضان میں کھجور کے مہنگے داموں کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کی وجہ امریکن ایمبیسی کا یروشلم شفٹ ہونا ہے اور وہاں جاری مظاہروں کے باعث فلسطین سے کھجور درآمد کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ میں اس کے اس ماہرانہ تجزیہ پر انگشت بدنداں رہ گیا۔

ہم ہر سنی سنائی بات کو ملک کے طول و عرض میں پہنچانے کے بھی ماہر ہیں۔ مثلاً بچپن سے آج تک ہم سنتے آئے کہ انڈین اداکار امریش پوری اجے دیوگن کا باپ ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں۔ اجے کے باپ کا نام ویرو دیوگن ہے۔

یہ سب کیا ہے؟

یہ سب چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہم ایک کنفیوژڈ قوم ہیں۔

ہم میں قوت فیصلہ کی شدید کمی واقع ہو چکی ہے۔ ہم میٹرو بنانے کے لئے پورا پورا شہر کھود دیتے ہیں لیکن نکاسی آب کا انتظام نہیں کرتے۔

10  منزلہ پلازے تعمیر کر دیتے ہیں لیکن اسکی پارکنگ نہیں بناتے۔ ہم آجتک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ بچوں کو بیکن ہاؤس اور یورپئین نظام تعلیم میں پڑھانا ہے یا گورنمنٹ سکولوں کے اردود میڈیم میں۔

ہمارے یہاں آسٹرو فزیسسٹ اور ماہرین فلکیات سیاسی حالات پر کالم لکھتے ہیں اور مولوی ہر قمری مہینے کی آخری تاریخوں میں دور بینیں اور ٹیلی سکوپس پکڑ کر چاند کی پیدائش اس کی عمر اور خلا میں اسکی گردش کا پیٹرن قوم کو پریس کانفرنس میں بتاتے ہیں۔

ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ ہمیں کپڑے کیسے پہننے ہیں یا کونسا لباس ہمارے موسم اور ہمارے کام کے مطابق ہے۔ لباس کے معاملے میں ہمارا کمپلیکس اتنا زیادہ ہے کہ اس پر پورا ایک کالم لکھا جاسکتا ہے۔

ہم ہر انگریزی بولنے والے کی گفتگو پوری توجہ سے سنتے ہیں اور اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔

یہ سب کیا ہے اور کیا ہماری اپنی کوئی پہچان بھی ہے؟

یا بھر ہم سب چراغ دین خاکروب کے داماد بن چکے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).