یونیورسٹی ہاسٹل میں طالبات کی تذلیل


پاکستان میں مذہبی طبقے میں شدت پسندی کوئی نئی بات نہیں رہی لیکن کچھ مذہبی حلقوں کو آج بھی متوازن خیال کیا جاتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام چلنے والی منہاج یونیورسٹی اس کی بڑی مثال دی جاتی ہے۔ جہاں ملک بھر سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات زیرتعلیم ہیں۔ منہاج یونیورسٹی میں پڑھنے والی بچیوں کو روشن خیال مذہبی طبقہ خیال کیا جاتا ہے اور ان بچیوں کی تربیت کو مثالی قرار دیا جاتا ہے۔ ماضی میں اگر جھانکا جائے تو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران یونیورسٹی میں زیر تعلیم ان بچیوں نے دیگر ورکرز کے شانہ بشانہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کی حفاظت کے لیے قربانیاں دیں۔ جس کا اعتراف خود تنظیمی عہدیداران کی جانب سے متعدد مقامات پر کیا جاتا رہا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدأ کے لیے حصول انصاف کی تحریک ہو یا کوئی بھی اہم تحریکی ایونٹ منہاج القرآن یونیورسٹی کی یہ طالبات مردوں سے کبھی پیچھے نہیں رہیں اور بلا شبہ تحریک سے وابستگی کے باعث انہیں اپنے والدین کی بھی بھرپور تائید حاصل ہو گی۔

گزشتہ روز منہاج القرآن یونیورسٹی کے ہاسٹل میں سحری انتظامات کی شکایت کرنے والی طالبات سے عوامی تحریک کے رہنما خرم نواز گنڈا پور کی طالبات سے بدتمیزی اور دھمکیوں کی لیک ہونے والی ویڈیوز نے سب کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ ڈری سہمی طالبات بار بار اپنا مسئلہ بتانے کی کوشش کرتی رہیں لیکن بپھرے ہوئے خرم نواز گنڈا پور کسی کی بات سننے پر آمادہ نہیں تھے۔ طالبات کو بار بار شٹ اپ کال دیتے رہے۔ معاملہ چاہے طالبات کے ہاسٹل سے باہر جانے کا تھا یا سحری انتظامات میں بد انتظامی کا، کسی بھی طرح ایک تنظیم کے مرکزی قائد کو اس طرح بچیوں کو دھمکیاں دینے اور بدتمیزی کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

دوسری طرف ایک ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے خرم نواز گنڈا پورا کا کہنا تھا کہ طالبات رات کے وقت پارٹی کے لیے ہاسٹل سے باہر جانا چاہتی تھیں۔ جب کہ ان کے والدین نے خود ہی یونیورسٹی انتظامیہ کو کہہ رکھا ہے کہ بچیوں کو کسی بھی طرح ہاسٹل سے باہر جانے کی اجازت نہ دی جائے اور خاص طور سے رات کے اوقات میں بچیوں کو ہاسٹل سے باہر جانے کی اجازت نہ دی جائے۔

خرم نواز گنڈا پور کی ٹی وی گفتگو سن کر اگر ان کی بات کو درست مان بھی لیا جائے کہ طالبات رات کے اوقات میں ہاسٹل سے باہر جانے پر بضد تھیں تو مجھے اس حوالے سے 2002 کے انتخابات یاد آرہے ہیں۔ جب جھنگ سے علامہ طاہر القادری قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ ان کی انتخابی مہم چلانے کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں منہاج القرآن یونیورسٹی کی بچیوں کو جھنگ بھجوایا گیا تھا جنہوں نے گھر گھر جا کر علامہ طاہر القادری کی انتخابی مہم چلائی۔ اس بات کا مجھے اندازہ نہیں ہے کہ ان بچیوں کو لاہور سے اڑھائی سو کلو میٹر دور بھجواتے ہوئے ان بچیوں کے والدین کو اعتماد میں لے کر ان سے اجازت لی گئی تھی یا نہیں۔ اس میں ان والدین کی مرضی بھی شامل تھی یا نہیں۔ اسلام آباد میں اڑھائی ماہ تک جاری رہنے والا دھرنا بھی سبھی کو یاد ہے۔ جس میں تحریک منہاج القرآن کے ورکرز کے شانہ بشانہ منہاج القرآن یونیورسٹی کی طالبات کی بھی بڑی تعداد میں شامل تھی۔ جب ان طالبات کو اڑھائی ماہ تک ہاسٹل سے باہر سڑکوں پر رکھا گیا تو کیا اس میں ان کے والدین کی مرضی شامل تھی یا نہیں۔ اس کے بعد بھی متعدد مواقع پر یونیورسٹی کی طالبات تحریک کے شانہ بشانہ احتجاجی دھرنوں اور ریلیوں کا حصہ بنتی رہی ہیں۔

بات ہاسٹل سے باہر جانے کی تھی یا سحری کے ناقص انتظامات پر احتجاج کی۔ خرم نواز گنڈا پور نے ٹی وی پروگرام میں بیٹھ کر ان طالبات پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ رات کے وقت پارٹی میں جانا چاہتی تھیں جس کی اجازت نہیں دی گئی تو انہوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ جیسے ان بچیوں کی تربیت اچھی نہیں اور وہ ہاسٹل سے باہر غیر اخلاقی سرگرمیوں کے لیے جانا چاہ رہی تھیں۔ ایک تنظیم کے مرکزی قائد کو کسی بھی طرح یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ قوم کی بیٹیوں کی اس طرح سے تذلیل کرے۔ انہیں اس طرح سے خوفزدہ کرے۔ اگر ڈسپلن کی خلاف ورزی کی جا رہی تھی تو اس کا بھی ایک طریقہ کار موجود تھا۔

خرم نواز گنڈا پور کے اس رویے سے ان والدین کو بھی مایوسی ہو گی جنہوں نے تحریک منہاج القرآن کے لیے قربانیاں دیں۔ جنہوں نے اعتماد کرتے ہوئے اپنے بچیوں کو تحریک کے تعلیمی اداروں میں داخل کروایا تاکہ ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بہتر تربیت بھی ہو سکے لیکن افسوس کہ خرم نواز گنڈا پور نے اپنے کندہ ناتراش لب و لہجے اور ناقابل قبول رویے سے طالبات کے ساتھ والدین کو بھی مایوس کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).