بحریہ ٹاون، ملیر کی زمین اور عدالتِ عظمیٰ


سپریم کورٹ کے کراچی بنچ نے بحریہ ٹاون ، کراچی اور ملیر والوں کی ملی بھگت سے گیارہ ہزار ایکڑ زمین خورد بُرد کرنے کا تفصیلی فیصلہ کر دیا ہے۔اس تاریخی فیصلے میں بنچ نے قرار دیا ہے کہ ملیر ترقیاتی ادارے کے پاس کوئی ایسا اختیار نہیں تھا کہ وہ یہ زمین کسی کو بھی بیچ سکے۔ لیکن ملیر کے افسران نے بحریہ ٹاون کے کرتا دھرتا وں سے مل کر نہ صرف یہ زمین بیچی بلکہ اس کا کچھ حصہ تبادلے میں بھی بحریہ ٹاون والوں کے حوالے کر دیا۔کچھ اس قسم کے معائدے میں کہ ملیر کی زمین کے بدلے میں ٹھٹھہ اور بلوچستان کے قریب زمین ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو مل جائے گی ۔یعنی زمین فروختند و چہ ارزاں فروختند! قدرتی ، قانونی امر تھا کہ عدالتِ عظمیٰ کا یہ بنچ اس تمام گورکھ دھندے کو ایک فریب قرار دے کر منسوخ کر دیتا۔ یہی کیا گیا۔
اس کا منطقی ، قوائد و ضوابط کے مطابق دوسرا عمل یہ تھا کہ بحریہ ٹاون کے ملوث کرتا دھرتااور ملیر ترقیاتی ادارے کے افسران کو ایک لمبی مدت کے لیے جیل بھیجا جائے۔گیارہ ہزار ایکڑ زمین کا گھپلا، برِصغیر ہند و پاک کے حوالے سے بھی ایک بڑا چھرا ہے، جو عوام و حکومت کے پیٹ میں ذاتی منفعت کے لیے گھونپا گیا ہے۔ہم پہلے بھی اس حسرت کا اظہار کر چکے ہیں کہ کاش ہماری حکومت اور ادارے کچھ ایسا کام کر یں کہ تعریف کرتے کرتے ہمارے لب اور قلم کی سیاہی خشک ہو جائیں۔ اس دفعہ ایسا لگتا تھا کہ وہ موقع آ گیا ہے۔لیکن ہماری خوشیوں اوراداروں کے خلاف کچھ لوگ ایسے ہیں ، جو رنگ میں بھنگ ڈالنے کے ماہر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ قصوروار افراد جیل میں نہیں بھیجے گئے بلکہ ان کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
اس تمام چکر کو جرمانے کا نقاب پہنا کر قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔ ورنہ مجرمان ، بنچ کے فیصلے کی روشنی میں ، جیل میں ہوتے۔جو لوگ بحریہ ٹاون میں مکان یا پلاٹ خرید چکے ہیں۔ ان کو نقصان سے بچانے کے لیے ملیر ڈیولپمنٹ تو نہیں ، البتہ ڈی ایچ اے ، کراچی کو انتظامی ذمہ داریاں سونپ دی جاتیں۔لیکن عوام کی فلاح کے نام پر اتنے بڑے مالیاتی سیکنڈل پر پردہ ڈالنا! دراصل ،گیارہ ہزار ایکڑ کا گھپلا ایک ایسی لاش کی مانند تھا جس کو جتنا بھی دباو ، وہ چھپتا نہیں ہے۔سمندر بُرد کرو تو پانی اُچھال دیتا ہے۔سندھ کی یا مرکز کی حکومت جتنا مرضی پردہ پوشی کرتی۔یہ ڈکیتی آشکار ہو کر رہتی۔اس کا صرف ایک ہی علاج ممکن تھا۔سُپریم کورٹ کا قانونی تحفظ۔اس عمل کی مشق جناب عمران خان کے بنی گالا والے ناجائز مکان اور جعلی دستاویز کے باوجود قانونی چھتری فراہم کرنے کی کوشش میں پہلے ہی ہو چکی ہے۔لیکن گیارہ ہزار ایکڑ کو کالے سے سفید کرنے! یہ واقعتا بڑی ڈکیتی ہے۔جو کچھ ہو رہا ہے اور جس ادارے کی وساطت سے ہو رہا ہے، اس کے بعد پاکستان کے مستقبل کے بارے میں خوش اُمید ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔تاہم یہ سطور آنے والی نسلوں کے لیے ہیں کہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو آپ سب کہاں تھے۔

اصغر خان کیس

ڈاکٹر پونگلوس کے بعد ہمارا شمار بھی خوش اُمید لوگوں میں ہوتا ہے۔اسی لیے ہم اصغرخان کیس کے بڑی بے چینی سے منتظر تھے۔صدیوں سے انصاف کا منتظر یہ مقدمہ کئی سطح پر پاکستانی معاشرے اور انصاف کا روشن مظہر ہے۔مرحوم اصغرخان ، امانت ، دیانت ، شرافت کو چھوڑ کر ،کئی حوالوں سے جناب عمران خان کے پیشرو ہیں۔اس مقدمے میں بھی جب اصغرخان صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں تو مرحوم نے فرمایا کہ ثبوت تو کوئی نہیں ، کچھ اخباری تراشے موجود ہیں۔اس آغاز کے باوجود ، اب تک کی پیشرفت یہ ہے کہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے تمام تر الزام جنرل اسد درانی پر ڈال دیا ہے۔خود وہ اپنے بارے میں یہ فرما رہے ہیں کہ کون میں؟ آپ نے یہ سوچا بھی کیسے کہ میں ایسے کام میں ملوث ہوں گا!
بیگ صاحب اس مسلے سے تو سمجھو ، نکل گئے۔بس ، انہیں تھوڑی زحمت اور کرنا ہوگی کہ آخر اپنی فاونڈیشن کے لیے کروڑوں روپے کہاں سے آئے؟زمانہ قبل از مقدمہ میں تو جنرل بیگ اور جنرل اسد درانی کا اعتراف تھا کہ دس کروڑ روپیہ ناجائز طور پر انتخابات کو متاثر کرنے کے لیے ہتھیائے گئے تھے۔سیاست دانوں میں سے بیگم عابدہ حسین، اعتراف ہی نہیں بلکہ رقم واپس کرنے کی سعادت بھی حاصل کر چکی ہیں۔اصولی ، قانونی ، منطقی طور پر ، ریاست کے قوائد وضوابط کے مطابق ، ان تین افراد کو تو جیل میں ہونا ہی چاہیے۔ لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟ یہ ایک اور امتحان ہے جس میں عدالتِ عظمیٰ نے اپنے آپ کو ڈال لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).