روزہ، حیض، پیڈز اور ہم سب



برصغیر میں خواتین کے سلسلہ میں معاشرے کے رویوں کے تین عکس ہم سب پر شائع تین مضامین میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ تحریم عظیم کی تحریر خواتین، حیض اور ماہِ رمضان، طیبہ مصطفیٰ کی تحریر بات پیڈز یا پیریڈز کی نہیں حیا کی ہے اور حفی مصطفیٰ کی زبانی کسی شریک کار کے تجربے پر مبنی تحریر میں، میرے ابو اور پیڈز پڑھ کر اتنا تو واضح ہے کہ ہمیں اپنے سماج میں پائے جانے والے بعض بنیادی سوالات پر ابھی کافی گفتگو کی ضرورت ہے۔ خیالات سے اتفاق و اختلاف سے قطع نظر تینوں تحریریں اس معاملہ کو اٹھانے کے لئے ستائش کی مستحق ہیں۔ تحریم عظیم اور طیبہ مصطفیٰ کے مضامین دو فکری انتہاؤں کی عمدہ مثال ہیں۔ اپنی اپنی جگہ تحریم اور طیبہ دونوں کے بعض سوالات جائز ہیں اور بعض اعتراضات محض اندیشہ ہائے دوردراز۔ تحریم نے رمضان میں حیض سے گذر رہی خواتین کے فاقہ کرنے کی مجبوری کا جو معاملہ اٹھایا ہے وہ بجا بھی ہے قابل توجہ بھی۔ یہ سوال بھی کسی حد درست ہے کہ بعض گھروں کی خواتین حیض کے دوران بھی معمول کی طرح گھر والوں کے ساتھ سحری و افطاری کرنے کے علاوہ پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی بھی مکمل اداکاری کرتی ہیں تاکہ گھر کے کسی مرد کو ان کی حالت کا علم نہ ہو سکے۔

تحریم نے جس مسئلہ کی جانب اشارہ کیا ہے اس کی جڑیں بطور سماج ہمارے کچے شعور میں گڑی ہیں۔ حیض کا تعلق نہ تو برہنگی سے ہے اور نہ ہی سیکس سے، یہ خواتین کے جسمانی نظام کا حصہ ہے۔ ہم ذہنی طور پر اتنے غریب واقع ہوئے ہیں کہ ہم حیض کو سیکس سے الگ کرنے کی بھی تمیز نہیں رکھتے۔ حیض،جس کے سلسلہ میں مرد حضرات حیرانی میں مبتلا ہیں یہی وہ عمل ہے جس کے دم سے ہی انسان کا وجود ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کے شعور پر شہوانی اثرات اتنے غالب آ چکے ہیں کہ ہم خواتین سے متعلق ہر شے کو سیکس سے الگ رکھ کر دیکھ ہی نہیں پاتے۔ اس فکری دیوالیہ پن کا علاج بہت مشکل بھی ہے اور وقت طلب بھی۔ میری دانست حیض کے سلسلہ میں کم بات ہونا بھی مسئلہ کی ایک جڑ ہے۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہماری محفلوں، مجلسوں، فلموں اور تحریروں میں اب ان موضوعات پر بات ہو جن پر ہماری اجتماعی خاموشی نے ہمیں پختہ معاشرہ نہیں بننے دیا۔

اب ذرا اس صورتحال کے ایک اور پہلو کو دیکھئے۔ تحریم نے رمضان میں کھانے پینے پر دوسروں کو ہونے والے اعتراض کا ذکر کیا ہے۔ یہ مسئلہ صرف خواتین اور حیض سے جڑا ہوا نہیں ہے۔ میرے جیسے گنہ گار دفتر میں کام سے تھک کر جب کبھی کافی منگوا کر پیتے ہیں تو روزے دار ساتھیوں کی ٹیڑھی نظروں کا ہی سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ کئی دیندار روزے دار کہہ دیتے ہیں کہ آپ کا روزہ نہیں ہے تو آپ کو کم از کم احترام رمضان کرنا چاہئے اور یوں روزے داروں کے سامنے کافی نہیں پینی چاہئے۔ معترضین کی نیک نیتی اور توقعات اپنی جگہ لیکن ہمیں اتنی رواداری رکھنی چاہئے کہ اگر کوئی رمضان کے دوران چائے پانی پی رہا ہے تو دیگر صورتیں بھی فرض کر لیں مثلا ممکن ہے وہ بیمار ہو، کوئی اور عذر ہو یا پھر شائد ڈاکٹر کے مشورے پر روزے چھوڑ رہا ہو۔ کسی کی ایمانی حرارت کو منٹ بھر میں ناپ کر فیصلہ سنا دینے کی ہماری خاصیت بھی ایسے اعتراض کا سبب ہوا کرتی ہے۔

طیبہ مصطفیٰ کا مضمون جس بنیادی استدلال پر کھڑا ہے وہ یہ ہے کہ حیض، پیڈرز اور انڈرگارمینٹس جیسے مباحث پر گفتگو کرتے ہوئے ایک حد سے آگے نہ جایا جائے۔ ظاہر ہے یہ بات سمجھ میں آںے والی بھی ہے لیکن مسئلہ یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ حیض، پیڈز اور انڈرگارمینٹس پر بحث کس مرحلے کے بعد بے حیائی میں داخل ہو جاتی ہے اس کا تعین کیسے ہو۔ مثلا میرے خیال میں حیض اور پیڈز پر گفتگو کا کوئی سرا بے حیائی تک نہیں جاتا۔ انڈر گارمینٹس کے حوالے سے گفتگو کو البتہ اس مرحلے تک لے جایا جا سکتا ہے جہاں استدلال کی جگہ چٹخارے دار نکات لے لیں۔ جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ حیض اور پیڈز کے بارے میں ہمارے سماج کا رویہ ان معاملات پر ہمارے خاموش رہنے کے سبب یہاں تک پہنچا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی نہیں کہ ان معاملات پر بات کم ہو بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ ان معاملات پر خوب بات کی جائے تاکہ ہم جان لیں کہ عورت کے جسم کا ہر عمل سیکس اور شہوانیت سے متعلق نہیں ہوتا۔

حیض اور پیڈز کے حوالے سے ہمارے رویے کا ہی نتیجہ ہے کہ بچیوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی پیڈز سے محروم رہتی ہے۔ کبھی کسی گاؤں دیہات کی کوڑی (جہاں لوگ لاکر کوڑا ڈالتے ہیں) پر جاکر دیکھئے تو آپ کو کپڑوں کا ڈھیر ملے گا جنہیں خواتین حیض کے دوران استعمال کرتی ہیں۔ اس کی وجہہ سے انہیں صحت سے متعلق بعض سنگین مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کو اس حد تک بے حیا کر سکیں کہ خواتین کھل کر پیڈز کی اپنی ضرورت کا اظہار کر سکیں تو شائد یہ بڑی خدمت ہوگی۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter