عمران خان سے ہماری محبت کیوں ناکام ہوئی؟


ہم یہ نہیں مانتے کہ ایسی محبت بس ایک بار ہی ہو سکتی ہے، ہمارا ماننا ہے کہ ایسی محبت یکبار، دو بار، سہ بار، چہار بار بلکہ ان گنت بار ہو سکتی ہے۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ ایسی محبت ایک ہی سے بار بار بھی ہو سکتی ہے اور بہت ساروں سے ایک ساتھ بھی ہو سکتی ہے۔ اور اس سب کے بعد ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ پہلی محبت جیسی سرشاری اور اس جیسا دکھ پھر کسی اور محبت میں نہیں ملتا۔ محبتیں تو پہلی کے بعد بھی ہوتی ہیں، دکھ بھی دیتی ہیں مگر محبت کا جو عروج پہلی محبت کو دیکھنا نصیب ہوتا ہے اور زوال پر جس طرح وہ گرتی ہے اور پھر جس طرح ساری عمر کچوکے لگاتی ہے، یہ خصوصیات صرف پہلی محبت کو ہی حاصل ہیں۔

آپ نے معلوم نہیں کس چکر میں یہ مضمون پڑھنے کے لئے کھول لیا، ہماری مراد ہماری پہلی سیاسی محبت تھی۔

ورلڈ کپ جیتنے کے بعد جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا شہر شہر استقبال ہو رہا تھا تو ہم اس وقت فقط بارہ سال کے تھے، والدہ گاڑی میں بٹھا کر لے گئیں کہ ہم عمران خان کو دیکھنے کے مشتاق تھے۔ مال روڈ پر رش لگا تھا، سارے انتظار میں تھے کہ قافلہ گزرے گا تو اپنے ہیرو کو دیکھیں گے اور ہاتھ ہلا ہلا کر داد دیں گے۔ گھنٹوں انتظار کیا تو پتا لگا کہ رش کی وجہ سے قافلے کا روٹ بدل دیا گیا ہے، والدہ نے جلدی جلدی گاڑی موڑی اور اس جگہ لے کر گئیں جہاں سے قافلہ گزرنا تھا مگر اس وقت قافلے کی بس دم گزر رہی تھی۔ والدہ کے چہرے کی وہ مایوسی آج تک یاد ہے کہ بچے عمران خان کو دیکھ نہیں پائے۔ ہماری عمران سے محبت کی یہ ابتدا قطعاً غیر سیاسی تھی اور کرکٹ سے متعلقہ تھی۔

اس کے بعد شوکت خانم کا غلغلہ اٹھا۔ سکولوں میں شوکت خانم کے ٹکٹ بانٹے گئے کہ بیچ کر شوکت خانم بننے میں مدد کی جائے۔ لوئر مڈل کلاس سے تعلق ہونے کے باوجود کہ ایک ٹکٹ بھی والدہ کے خرچ پر بھاری پڑتا، ہم صرف عمران خان کی محبت میں ٹکٹوں کی پوری کتاب بیچنے کے لئے لے آئے، شاید بیس ٹکٹ تھے سو یا دو سو روپے کا ایک۔ گھر آئے، والدہ کو بتایا تو انہوں نے کہا کہاں سے لاؤ گے اتنے پیسے، کون خریدے گا آپ سے۔ اب بھلا ہماری بلا جانے یہ سب رولے۔ والدہ کے کہنے پر محلے کے گھر گھر گیا ٹکٹ بیچنے۔ سفید پوشوں کا محلہ تھا (اب بھی ہے، اب بھی وہیں رہتا ہوں)، بس دال روٹی پوری کرتے تھے سب، ایک ٹکٹ بھی کسی نے نہیں خریدا۔ والد صاحب آفس سے گھر آئے تو والدہ نے ان سے ذکر کیا۔ وہ ٹکٹیں آفس لے گئے اور شام کو ساری ٹکٹیں کٹی ہوئیں اور ان کے پیسے لے آئے۔ ہم نے اگلے دن فخر کے ساتھ سینہ تان کر اپنے استاد کو پیسے دیے اور لاہور کے شوکت خانم کینسر ہسپتال کے بننے میں اپنی شمولیت کو ایک اعزاز سمجھا۔ اب صرف ورلڈ کپ جیتنے کی محبت نہیں تھی بلکہ غریبوں کے لئے مفت علاج گاہ مہیا کرنے والے مسیحا کے لئے دل میں عزت بھی تھی۔

اس کے بعد موصوف سیاست میں آ گئے۔ سیاست سے کیونکہ ہمیں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور ویسے بھی عمران خان لوگوں کو ہلانے جلانے میں ناکام رہے تھے اس لئے محبت میں کوئی کمی بیشی نہیں واقع ہوئی۔ دو ہزار گیارہ اکتوبر کا مہینہ تھا۔ لاہور شہر میں مینار پاکستان پر ایک جم غفیر اکٹھا تھا۔ اتنے لوگ تھے کہ پرویز رشید بھی کرسیاں گن گن کر تھک گئے۔ آپ تعداد کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ نون لیگ کے دوست سڑ سڑ کر اس رش کو پاشا کے کھاتے میں ڈال رہے تھے کہ یہ کارکردگی تو صرف نمبر ون ایجنسی کی ہی ہو سکتی ہے۔ ہم کہ اس جلسے میں لوگوں کے اژدھام کو دیکھ کر اور نون لیگ کی سڑیوں کو دیکھ دیکھ کر خوب لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اب آیا نا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ لوگ اتنی تعداد میں آئے تھے کہ اس کے بعد نون لیگ والے عمران کے لاہور کے ہر جلسے کے بعد کہتے پھرتے تھے کہ ویسا رش نہیں تھا، گو یہی نون والے اس وقت اتنے لوگ ماننے سے ہی انکاری تھے۔

پاشا پاشا کی آوازوں کے دوران ہی جاوید ہاشمی پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔ اب نون لیگ والے بیچارے منہ بسورے گھٹے گھٹے الفاظ میں پاشا کا نام لیتے مگر جیسے ہی جواب میں جاوید ہاشمی کا نام آتا تو سٹپٹا کر رہ جاتے۔

الیکشن کا ٹائم تھا، ہم نے بھی فیس بک پر بڑا ساتھ دیا عمران خان صاحب کا۔ گو کہ خود ووٹ نہیں ڈالنا تھا پھر بھی الیکشن والے دن عمران خان کی تصویر والی شرٹ پہن کر نون لیگ کے کیمپ کے آگے سے بار بار گزرنا ایک عجیب طمانیت کا احساس دیتا تھا۔ گو کہ پی ٹی آئی کی حکومت بننے کی تو امید نہیں تھی مگر توقعات سے بھی کم سیٹیں ملیں۔

یہاں تک تو ٹھیک تھا مگر خان صاحب نے پھر اپنے ووٹرز کو مایوس کرنے کا بیڑا اٹھایا اور پھر اس میں کمال کا عروج حاصل کیا۔ مانا کہ انسان خطا کا پتلا ہے مگر مایوس کرنے کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے۔ یہاں اب میں وہ لسٹ بناتا ہوں جن کی وجہ سے میں سیاست میں عمران خان سے مایوس ہوگیا۔

1۔ طالبان دہشت گردوں کی علانیہ حمایت۔ ان کو ناراض بھائی قرار دینا اور ان سے مذاکرات کے لئے مرے جانا۔
2۔ حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے پر مرنے کے بعد اپنے ہی صوبے میں انارکی پھیلانا۔
3۔ طالبان کی طرف سے عمران خان کو مذاکرات کے لئے اپنا نمائندہ بنائے جانا۔

4۔ تقریروں میں لچر اور بازاری زبان استعمال کرنا۔
5۔ حقیقی اپوزیشن کرنے کی بجائے فضولیات پر قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کرنا۔
6۔ جن کرپٹ لوگوں کے خلاف لڑنے کا عزم لے کر اٹھے تھے ویسے ہی کرپٹ لوگ اپنی جماعت میں دھڑا دھڑ شامل کرنا۔

7۔ نجم سیٹھی کے خلاف پینتیس پنکچر کا تماشہ لگا کر بعد میں مکر جانا۔
8۔ اپنے نظریاتی ساتھیوں کو بھول کر الیکٹ ایبلز کے پیچھے بھاگتے رہنا۔
9۔ وی آئی پی کلچر ختم کرنے کا نعرہ لگا کر اپنے لئے اور اپنے ساتھیوں کے لئے اسی وی آئی پی کلچر کا بیدریغ استعمال۔
10۔ کے پی کے سی ایم ہاؤس کی لائبریری کا ہوائی وعدہ۔
11۔ سول نافرمانی کی واہیات تحریک۔ وغیرہ وغیرہ

عمران خان صاحب، آپ نے تو اتنی دفعہ دل توڑا ہے کہ محبوبائیں بھی ترس کھا جائیں۔ ہمیں کب تک آپ کا یہ غیر محتاط اور ذلت آمیز رویہ برداشت کرنا پڑے گا؟ خدارا اب بس کیجئے کہ اب ہماری بس ہوگئی ہے۔ یقین رکھیں کہ ہم آپ کے ہسپتالوں کو اسی طرح چندہ و زکوٰۃ دیتے رہیں گے جیسے پہلے دیتے رہے ہیں مگر ووٹ ہم میں سے اب بہت سارے نہیں دیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں آپ نے ہی پہلی دفعہ گھر سے نکالا تھا ووٹ دینے کے لئے مگر اب آپ ہی ان کو الیکشن والے دن سونے پر مجبور کریں گے۔

شاعر نے شاید آپ کے لئے ہی یہ شعر لکھا تھا کہ
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).