جو قوم کتابیں نہیں پڑھتی


ہمارے ایک بہت پہنچے ہوئے عزیز ہیں جن کا پسندیدہ مشغلہ مذہب اور سیاست پر بحث کرنا ہے۔ یہ بحث عام طور پر وہ اپنے ’فیس بکی علم‘ کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ عموی طور پر پر ہم ان سے گفتگو کرنے سے پرہیز ہی فرماتے ہیں کیوں کہ بحث کا انجام زیادہ تر عورتوں کے ناقص العقل ہونے پر ہوتا ہے۔ لیکن ایک دن بحث میں کچھ ایسی بات چھڑی کہ اس کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ بات تو پتہ نہیں کیسے شروع ہوئی لیکن یہ یاد ہے کہ ان کے ایک بے وقوفانہ ریفرنس کے جواب میں ناقص العقل عورت نے فرما دیا کہ جو قوم کتابیں نہیں پڑھتی اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ جواب میں کہنے لگے اگر کتابیں پڑھ کر لوگ اپنے مذہب اور رسم و رواج کی نفی کرنے لگیں تو اس سے بہتر ہے کے وہ کتابیں نہ ہی پڑھیں۔ ظاہر ہے اشارہ کچھ مابدولت کی طرف ہی تھا۔ یہاں بحث تمام ہوئی لیکن مجھے سوچنے پر مجبور کر گئی کہ آخر اس قوم کی کتابوں سے بغض کی وجہ آخر ہے کیا؟

ایک تو سمجھ میں آتا ہے کہ بچوں کے کندھوں پر بستوں اور پوزیشن لانے کا بوجھ اتنا ہے کے ان کو اپنے نصاب کے علاوہ کوئی کتاب پڑھنے کی نہ فرصت ہے اور نہ ہی والدین اور استاد اس بات کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں۔ آخر نصاب سے ہٹ کر کتابیں پڑھنے کا فائدہ بھی کیا ہے؟ امتحان میں ’میرا گھر‘ پر مضمون میں سب نے وہی لکھنا ہے جو کہ کلاس میں استاد نے ’اپنے گھر‘ کے بارے میں لکھوایا تھا۔ ہر عرضی کا آغاز ’آئی بیگ ٹو‘ سے ہی کرنا ہے

یہ کتابیں نہ پڑھنے کا نقصان ہی ہے کہ جس کی وجہ سے ہماری قوم کوئی متبادل نظریہ سننے کو تیار ہی نہیں ہوتی۔ کیا آپ لوگوں کو احساس ہے کہ آپ کے ارد گرد زیادہ تر لوگوں کے نظریات اور زندگی گزارنے کے طریقے وہی ہیں جو ان کی پچھلی نسل کے تھے۔ ان طور طریقوں پر اعترض کرنا اور ان پر سوال اٹھانا سیدھا سیدھا توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ سوال اٹھانے والے کو باغی، ملحد، ایجنٹ اور پتہ نہیں کیا کیا لقب دیے جاتے ہیں۔ کتابیں پڑھ کر سوال پوچھنا کیسے غلط ہو سکتا ہے؟ تحقیق اور جستجو کیسے غلط ہو سکتی ہے؟ کیا ہمارے عقیدے، رسوم و رواج، اور مذہب اتنے کمزور ہیں کے وہ سوال اٹھانے سے خطرے میں پڑ جاتے ہیں؟

کتابیں پڑھنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ دنیا کے سب سے ہوشیار انسان بن جائیں گے لیکن اس بات کی ضمانت ضرور ہے کہ یہ آپ کو آپ بہتر تعلیم یافتہ بنا دے گی۔ آپ بات کرتے ہوئے کسی مصدقہ حوالہ سے بات کریں گے، ہوا میں ٹامک ٹویاں نہیں ماریں گے۔ پاکستان میں کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ مشہور سے مشہور لکھاری بھی اپنی کتاب کی ڈر ڈر کے 500 کاپیاں چھپواتا ہے۔ کوئی پتہ نہیں اس میں سے بھی آدھی واپس گھر کو آ جائیں اور پھر ان کو رکھنے کے لئے جگہ بنوانی پڑے۔

یہ کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالنا ایک دن یا ایک ہفتے کا کام نہیں ہے۔ ایک پوری نسل کو ٹریننگ دینی پڑتی ہے تب کہیں جا کر پودا درخت بنتا ہے۔ بچوں میں جب پڑھنے کی عادت ہو گی تو خود بخود آئندہ آنے والی نسلیں کتابیں پڑھنے کا شوق رکھیں گی۔ بچوں میں پڑھنے کی عادت کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنی مصروف زندگی میں سے 5-10 منٹ نکالیں اور ان کو رات سوتے وقت ایک کہانی کتاب میں سے پڑھ کر سنا دیں۔ یہ سچ ہے کہ تمام بچوں کو پڑھنے کا قدرتی شوق نہیں ہوتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زیادہ تر بچوں میں اس شوق کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ آخر کوئی تو وجہ ہو گی نا کہ جرمنی، سوئٹزر لینڈ، امریکا، تھائی لینڈ، چین، اور انڈیا میں ایک اوسط شہری ایک ہفتے میں 5-10 گھنٹے پڑھتا ہے۔ کیا آپ کو ان قوموں کی ترقی کرنے اور پڑھنے کی عادت میں کوئی مماثلت نظر آتی ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ یہ کتابیں ہی تھیں جن کی وجہ سے میں نے اور بہت سے اور لوگوں نے سوال اٹھانا شروع کیا۔ جی ہاں وہی سوال جن کو اٹھانا یہاں گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو کتابیں پڑھ کر سوال اٹھانے کو گناہ سمجھتے ہیں آخر ان لوگوں سے کس طرح مختلف ہیں جو زمانہ جاہلیت میں اپنے پیشرو کے طریقے چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ چھوڑنا تو دور کی بات ہے انھوں نے سوال اٹھانے والے مظلوموں پر ہر طرح کے ستم توڑ ڈالے۔ آج خیر سے انہی مظلوموں کی امت نے سوال اٹھانے پر پابندی لگا ڈالی ہے۔ کتابیں پڑھ کر اور سوال اٹھا کر ہی ہم دین اور دنیا کو بامعنی انداز میں سمجھنے کی صلاحیت پیدا کر سکتے ہیں۔

کتابوں کی دشمن، سوالوں کی دشمن قوم کا کچھ نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments