کیا عوام جمہوری نظام بچا پائیں گے؟


کم سنی میں ایک ناول پڑھا تھا، اس میں کچھ ایسی صورت احول تھی، کہ ایک شخص کی اراضی پر کچھ بدقماش قبضہ کر لیتے ہیں۔ وہ فریاد لے کر ایک با اثر کے پاس جا پہنچتا ہے۔ وہ با اثر شخص اسے یہ کہ کر لوٹا دیتا ہے، کہ جو شخص اپنی اراضی کی حفاظت نہیں کرسکتا، اسے حق نہیں پہنچتا، کہ وہ اس کی ملکیت کا دعوا کرے۔ خلاصہ اس ماجرے کا یہ ہے کہ زمین کا مالک وہی ہوتا ہے، جو اس کی نگہ بانی کرسکے۔

کچھ ایسا ہی سبق سکندر مقدونی کو اس کے استاد ارسطو نے دیا تھا۔ جب سکندر نے فخریہ کہا، کہ میرا باپ بادشاہ تھا، اس لیے بادشاہت میرا حق تھا؛ تو استاد نے کہا، وراثت کَہ دینے سے نہیں ہوتی، وراثت کے حصول کے لیے وارث کو اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرنا ہوتا ہے۔

یہ دو مثالیں ایسے ادوار کی ہیں، جب بادشاہوں کے راج ہوا کرتے تھے۔ تلوار فیصلہ کیا کرتی تھی۔ جن خطوں میں بادشاہت کے زمانے لد گئے، اور انسان اس نتیجے پر پہنچا کہ ہتھیار کے زور پہ کیے فیصلے انسانوں کو تباہی کے دہانے پر لے جاتے ہیں؛ انھوں نے جمہوریت کا نظام اپنا لیا۔ آج انسان کا اجتماعی شعور اس پہ متفق ہے، کہ ہزار خامیوں کے باوجود جمہوریت سے بہ تر نظام حکومت تا حال دریافت نہیں ہوا۔

پاکستان کیسے وجود میں آیا، یہ سبھی جانتے ہیں۔ مسلمانان ہند نے اپنے لیے الگ ریاست کا مطالبہ کیا، جمہوری نظام کے تحت، جمہور کی رائے لی گئی، اور ہندُستان تقسیم ہوگیا۔ یہ واضح ہے، کہ پاکستان بندوق کی طاقت سے نہیں بنا، لیکن معرض وجود میں آنے کے گیارہ سال بعد بندوق کے زور پہ جمہور کے فیصلے کی توہین کی گئی۔ پہلا مارشل لا لگانے والے جنرل ایوب خان کے بعد، جنرل یحیی خان، جنرل ضیا الحق، جنرل پرویز مشرف نے جمہوریت کی بار بار تذلیل کی؛ جمہوریت کی تذلیل کا مطلب جمہور کی تذلیل ہے۔

بار ہا کے فوجی اقتدار، اور پھر کنٹرولڈ ڈیموکریسی نے عوام کے اذہان میں جمہوریت کا تصور ہی نہیں واضح ہونے دیا۔ آج عوام کے منتخب ارکان جب یہ گلہ کرتے ہیں، کہ انھیں اختیار نہیں دیا جاتا، یا ادارے ان کے حکم کی تعمیل میں پس و پیش کرتے ہیں، تو سیاست دانوں کے ناقدین کچھ اس طرح کا جواب دیتے، ”پھر آپ استعفا کیوں نہیں دے دیتے؟“ یا یوں کہیں گے، ”اگر آپ کی بات نہیں مانی جا رہی تھی، تو آپ کو استعفا دے دینا چاہیے تھا۔“ یہ وہی سوچ ہے، جو اوپر بیان کی گئی۔ اگر آپ کی اراضی پر کوئی قبضہ کر لیتا ہے، تو آپ اس قابل نہیں، کہ آپ کو وہ اراضی لوٹائی جائے۔

مخصوص ذہنیت کے یہ وہ ناقدین ہیں، جنھیں عوامی نمایندے شاید اچھے نہیں لگتے۔ یہ منتخب نمایندے جب غیر جمہوری قوتوں کی طرف سے دباو میں لائے جاتے ہیں، تو یہی ناقدین جو دفاعی تجزیہ کار کے طور پہ سامنے آتے ہیں، منتخب حکمرانوں کو استعفا دینے کا مشورہ اسی لیے دے رہے ہوتے ہیں، کیوں کہ دباو میں لانے کا مقصد یہی ہوتا ہے، کہ منتخب نمایندہ استعفا دے کر گھر چلا جائے، اور اس کی جگہ کسی اور کو لایا جائے جو حکم دینے کے بہ جائے، حکم لینے کو تیار بیٹھا ہو۔

عوام کے ووٹوں سے منتخب ارکان کی طاقت بندوق نہیں، عوام کے ووٹ ہوتے ہیں۔ آئین منتخب نمایندے کو حق دیتا ہے، کہ وہ اپنے عہدے کے مطابق اپنا اختیار استعمال کرے۔ کوئی فرد، کوئی بدقماش، کوئی لُٹیرا اس پر بندوق تان لے، کہ اب میری ہدایت پر عمل کرو، تو کیا یہ کہا جانا چاہیے، کہ بالکل! اگر تم اس بندوق کا مقابلہ نہیں کرسکتے، تو اس کی بات مان لو۔

اگر جمہوریت پر یقین رکھنے والوں نے ایسی قوتوں کا مقابلہ بندوق سے کرنا ہے، تو پھر ان کے جمہوری نظام کا حصہ بننے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ انھیں طالبان کی طرح اپنے گروہ بنا لینے چاہئیں، اور بندوق کے زور پہ اقتدار لینے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ایسا منظر ہو تو کون کَہ سکتا ہے، کہ خون خرابہ نہ ہوگا! آج بادشاہ قلعہ فتح کرے گا، کل کوئی کوئی دوسرا بادشاہ تہ تیغ کرنے آ جائے گا۔ ارسطو کے دیے سبق کو آج یوں سمجھا جائے گا، کہ ”وہ اقتدار کا حق دار ہے، جو عوام کی حمایت و تائید حاصل کرلے۔“ عوام کی حمایت و تائید جاننے کا ایک ہی طریقہ ہے، اور وہ طریقہ ہے، الیکشن۔

جمہوری نظام میں مقننہ یعنی پارلیمان، عدلیہ اور انتظامیہ ریاست کے ستون کہے جاتے ہیں، صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ اب صحافت ہی سے مثالیں لیجیے، تو معلوم ہوتا ہے، کہ کالم نویس، تجزیہ کار حکومت کو یہ طعنے دے رہے ہوتے ہیں، کہ اگر آپ کا اختیار نہیں ہے، تو اپنے عہدے سے کیوں چپکے ہوئے ہیں۔ گویا عہدہ نہ ہو گیا، کسی سیٹھ کی نوکری ہوئی۔ پھر آپ دیکھیے کہ ایسے کتنے کالم پڑھنے میں آتے ہیں، جس میں یہ کہا جا رہا ہو کہ پارلیمان سپریم ہے، اس لیے سب ادارے پارلیمان کی عزت کریں؟ اُلٹا پارلیمان پر لعنت بھیجی جا رہی ہوتی ہے، سیاست دانوں کی کردار کشی کی جا رہی ہوتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ عوام کے منتخب نمایندوں پر تنقید نہیں ہوسکتی؛ کیوں نہیں ہوسکتی، جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی تو بنیادی شرط ہے۔ تنقید کے بھی آداب ہوتے ہیں۔ جو تماشے ہمارے نیوز چینل پر دکھائے جا رہے ہوتے ہیں، اس میں صحافی برادری کے لوگ جس طرح کی زبان استعمال کر رہے ہوتے ہیں، وہ صحافتی اقدار کی نفی کر رہی ہوتی ہے۔ بین السطور یہ سب یک زبان ہو کے منتخب نمایندوں کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں، کہ اپنے ما تحت اداروں کے تابع فرمان ہوجاو۔

اگر پاکستان میں مزید پانچ سال جمہوری نظام قائم رہ گیا، تو مجھے یقین ہے، کہ غیر جمہوری قوتوں کی طرف سے ان سیاست دانوں پر ”دباو“ کی صورت میں، یہ عوام اپنے نمایندوں کی پیٹھ پیچھے کھڑے ہوں گے۔ صرف پانچ سال اور درکار ہیں، پاکستانی عوام کے اذہان میں یہ ابہام نہیں رہے گا، کہ ان کی بھلائی جمہوری نظام میں ہے، اور جمہوری نظام میں عوام کے منتخب نمایندے ہی فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عوام کو جان لینا ہے کہ جمہوریت ان کی قوت ہے، شخصیات کی طاقت نہیں۔ عوام کو جمہوریت کی وراثت لینے کے لیے خود کو اس کا وارث ثابت کرنا ہوگا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran