روزے میں بھوک کے فلسفے کی تلاش اور کچھ جواب


آج سے دو سال پہلے میں نے ڈان اخبار کے لئے  ایک کور سٹوری کی۔ یہ سٹوری وائرل ہو گئی۔ آدھی رات کو میرے ایک کلاس فیلو نے میسج کیا کہ تمام سوشل میڈیا پر سٹوری شیئر ہو گئی ہے کمال میرا نہیں، سٹوری کے کرداروں کا تھا۔ یہ سٹوری انسپائرنگ تھی، مگر آج تو مزید انسپائرنگ بلکہ ایک انٹرنیشنل سٹوری ہے۔ بے شمار ملکوں میں شئیر کی جا چکی ہے۔ ہم بہت دل خراش اور پست انسانی اقدار والےمعاشرے کے باشندے ہیں، اچھی بات کو ترس چکے ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ دو، تین لمز کے سٹوڈنٹس نے مل کر ایک ایک پروجیکٹ شروع کیا، “رزق” کے نام سے۔ آغاز نہایت سادہ لیکن مشکل تھا، قاسم، حزیفہ اور موسیٰ ان تینوں نے رزق کے نام سے ایک ویب سائٹ بنا لی جہاں کھانا ضائع کرنے کے بجائے یہ لوگوں کو کھانا ڈونیٹ کرنے کا موقع دیتے اور پھر جو بھی ان سے رابطہ کرتا یہ ہر جگہ خود جا کر کھانا لیتے اور مستحق افراد میں تقسیم کرتے۔ یہ وہ کھانا تھا جو افراط کی وجہ سے نذر نیاز، شادی،اور دعوت سے بچ جاتا تھا، نیت تھی کہ رزق بچاؤ اور بھوک مٹاؤ۔

آؤٹنگ، کھانے، اپنے وعظ اور سسٹم کو گالیاں دینے کے بجائے ِ ان تینوں نے فرق راستے کا انتخاب کیا۔ مجھے یاد ہے دو سال پہلے جب میری ان سے بات ہوئی تو لاہور میں موجود ایک ریسٹورنٹ سے یہ بوفے کے بعد بچنے والا کھانا کولیکٹ کرکے رات کو بارہ، ایک بجے کھانا باٹنے جاتے تھے۔  کبھی کلاس مس کی، کبھی دوستوں سے مدد مانگی، کبھی پٹرول کے پیسوں کا مشترکہ چندہ لیکن مشن جاری رہا۔ اس مشن کا آغاز صرف اس سوچ پر ہوا کہ بھوک مٹانے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں، بس ایک گروپ بنایا اور فیس بک پر ڈال دیا۔ اگلے دن ایک عمر رسیدہ جوڑے نے کھانا کولیکٹ کرنے کی کال دی، بس کچھ پیکٹ کھانے سے اس سفر کا آغاز ہوا۔ جس وقت ہمارے گھروں کے بچے بور ہوکر مکڈونلڈ آرڈر کرتے ہیں، بہت سے بچے بھوک سے نڈھال ہو کر سو نہیں پاتے۔ ان بھوکے بچوں کا کوئی مذہب اور شناخت نہیں، شہر کی خوبصورت سڑکوں پر یہ بدحال بچے، فوٹوگرافرز اور ٓرٹسٹ کے لئے ایک بہترین موضوع تخلیق مگر ایک خود ایک بھیانک زندگی سے دوچار بچے۔۔۔۔۔ سٹریٹ چلڈرن کا سب سے بڑا دشمن بھوک ہے، مار ڈالنے والی خوفناک بھوک اور ایک طرف ہے مار ڈالنے والی خوفناک ہوس، کچھ بھی پکا لو، کچھ بھی کھلا دو، کچھ بھی خرید لو، کچھ بھی کما لو ہوس ہے کہ بجھتی نہیں، ایک تشنگی ذاتی نام اور دام کی۔ ایسے میں معاشرے کے اچھے پہلو دیکھنا، دکھانا اور بھی ایک نیکی ہے۔

 ان تین سٹودنٹس نے کوئی کانفرنس کی، نہ ہی کوئی این۔ جی۔او بنائی، بس صرف مشن پر ثابت قدم رہے۔ آج لاہور، کراچی، فیصل آباد، ملتان، اسلام آباد، سیالکوٹ اور پشاور تک رزق کا دستر خوان پھیل چکا ہے۔ لاہور میں کھوکھر چوک، جوہر ٹاؤن اور فردوس مارکیٹ میں ایک پورے خاندان کا کھانا دس سے بیس روپے میں سپلائٰی کرتے ہیں۔ اس وقت تذکرہ شدہ تمام بڑے شہروں پانچ افراد پر مشتمل خاندان کا راشن کل پانچ سو روپے میں، رزق کے ڈسٹری بیوشن سنٹر سے سپلائی ہوتا ہے۔ جلال سنز، ایچ۔ کریم۔ بخش اور میٹرو جیسی جگہوں سے راشن کے کوپن خرید خرید کر لوگ رزق کو ڈونیٹ کرتے ہیں اور رزق کے سسٹم کے ذریعے اسی طرح مستحق افراد میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ آن لائن پورٹل کے ذریعے افطار اور کھانا ڈونیٹ ہو جاتا ہے، ایک رزق رکشہ سروس گھر سے کھانا لے جاتی ہے اور پھر اس کو تقسیم کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ اکاؤنٹ کے ذریعے تمام تر صدقات اور ڈونیشن وصول کیے جاتے ہیں۔ اس قدر بڑا سلسلہ مگر مقصد اس سے بھی بڑا اور بھوک اس سے بھی بڑی کہ ناختم ہونے والی ۔ تقریبا پورے ملک میں سسٹم، روز مرہ کھانا سپلائی کرنے کی بنیاد پر چلتا ہے، آج بے شمار طلبہ رزق میں انٹرن شپ کرتے ہیں اور کھانا کولیکٹ کرنے سے لے کر، کھانا پہنچانے کا ایک پورا سسٹم ہے۔ ؛افطاری کے انتہائی منظم دسترخوان سے لے کر ماہوار راشن سپلائی ایک پورے سسٹم ہے اور ولینٹیر بنیادوں پر ہے۔

 بحیثیت ٹیچر میں نے یوینیورسٹی کے طلبہ میں اکثر ایک بے چینی، بے سکونی اور شکایت کا عنصر دیکھا، کچھ غلط بھی نہیں، ان کو ملک اور سسٹم سے کافی شکایات ہیں۔ میرے یونیورسٹی کے کورس کے دوران میرے طلبہ ہمیشہ پوچھتے ہیں کہ، اکثر این جی او کے اپنے ایجنڈے ہیں، حکومت کا اپنا ایجنڈا ہے، آخر ہمارے مسائل کے حل کا ایجنڈا کہاں ہے؟ بے یقینی، فرسٹریشن میں کوئی بھی خوش نہیں۔ کوئی سوشلزم کا نعرہ، کوئی مذہب کا آسرا ڈھونڈتا ہے۔ بڑی بڑی باتوں پر بحث ہوتی ہے، امریکہ کے ویزہ کے لیے بے چین بچوں کو دشمن بھی امریکہ لگتا ہے۔ کامن ویلتھ سے نالاں قوم، سکالر شپ بھی کامن ویلتھ کی مانگتی ہے۔ اس بحث کا علاج ایک اور بحث ہے، مگر بھوک اور غربت کا علاج رزق بچا نے میں ہے۔ افریقہ میں کمیونٹی ؛سروس پر بے شمار تجربے ہوئے اور کا؛میاب رہے۔ مسائل کا حل ڈھونڈنے کے بجائے تنقید ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے، لیکن اگر دل کرے تو حل کے لئے اے۔سی والے کمرے سے باہر آنا ضروری ہے۔ روزے کی بھوک پیاس کا فلسفہ بھوک کی تکلیف کو سمجھنا ہے، وعظ اور نصیحت سے انسانی تکلیف سمجھ نہیں آتی، اس لیے روزہ فرض ہوا تاکہ بھوک اور پیاس کا اندازہ ہو جائے اور پھر زکوٰة فرض کردی تاکہ مال ڈونیٹ کرنے کے لئے انسانی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو۔  شائد یہ فلسفہ سمجھ آجاتا تو ہمارے ملک میں رمضان کے مہینے میں سب سے مہنگا فروٹ نہ ملتا، خواتین محلے کے چار پانچ بچوں کو فری پڑھا دیتیں، ہر درس قرآن کے اختتام پر گروپ یتیم خانے جا کر ان یتیم بچوں کو وہ شفقت دیتے جس کے وہ حق دار ہیں اور جگہ جگہ خدا ان حقوق کا ذکر کرتا ہے۔ لیکن فلسفہ سمجھنا مشکل کام ہے۔ فلسفہ سمجھ کر عمل کریں تو مسائل کا حل اپنے اندر سے مل جائے گا۔ اس دفعہ گرمیوں کی چٹھیوں میں کسی کمیونٹی پراجیکٹ کا حصہ بن جائیں، ؛صرف کچھ بچوں کو پڑھا دیں، کہیں مدد کر دی اور کہیں مدد پہنچا دی۔

 سٹوڈنٹ دوستوں کی باتوں سے نکل کر رزق آج ملک بھر میں رزق سپلائی کرتا ہے، یہ سٹوڈنٹ نہیں، ہمارے استاد ہیں، ان سے سیکھ لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).