یوم تکبیر اور تھرل کی چاہ


میرا بچپن آزاد کشمیر کے برطانوی شہر میرپور میں گزرا ہے۔ اب کا پتہ نہیں لیکن آج سے قریب بیس برس پہلے حالات بڑے اچھے تھے۔ برطانوی اس لئے کہا کہ میرپور کے ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد ولایت میں مقیم ہے۔ بعض گھروں کی تو پوری پوری نسلیں وہاں ہیں۔ ہر گھر میں فانوس تھے۔معاشی خوش حالی کی وجہ سے چوری ڈاکے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔

میرپور کو راولاکوٹ یا مظفرآباد مت سمجھئے۔ یہ ان شہروں سے کہیں ترقی یافتہ تھا۔ تعلیم یافتہ بھی تھا اور روشن خیال بھی۔ موسم بھی معتدل تھا۔ پنجاب کی گرمی بھی نہیں تھی اور شمال کی خنکی بھی۔ عقب میں منگلا ڈیم اور جھیل تھی۔ پہاڑی علاقہ تھا اس لئے سڑکیں بھی اونچی نیچی تھیں۔ اس وقت بہت آبادی بھی نہ تھی۔ ہمارے گھر کے لاونج کے دروازے سے منگلا جھیل پر چمکنے والی سورج کی کرنیں جھلمل کرتی نظر آتی تھیں۔ جھیل کا پانی بھی دن کے ہر حصے میں مختلف رنگ دکھاتا تھا۔ کبھی سبز تو کبھی نیلا۔۔۔ بالکل کسی بے نیازحسینہ کی کنچوں سی چمکتی رنگین آنکھوں کی طرح جو دھوپ میں اپنا رنگ بدلتی ہیں اور بے وفا کہلاتی ہیں۔

یہ قصہ ہم جس دن کا سنا رہے ہیں وہ پنجاب میں گندم کی کٹائی کا موسم تھا۔ ہمارے ہاں موسم خوشگوار تھا۔ کشمیر کے سبھی بچے سیاسی تھے۔ غیر سیاسی کی منطق آپ کے ہاں چلتی ہو گی۔ وہاں نہیں تھی۔ خیر بارہ سال کی عمر کون سی کم ہوتی ہے۔ ہم سب نہ صرف  اپنے اپنے ٹوٹے سیاسی نظریات رکھتے تھے بلکہ ان پر بڑی ڈھٹائی سے قائم بھی تھے۔ بھارت ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا۔ خطے میں تھرتھلی تو مچی ہی ہوئی تھی۔ ہر کسی کی نظریں اب پاکستان پر تھیں کہ یہاں سے کیا آتا ہے۔ عالمی پریشر بھی بہت تھا کہ خطے کے امن کو قائم رکھا جائے۔ اور اپنے ضبط پر ناز کر کے دنیا سے مراعات لی جائیں۔ اس وقت کے اہل اور اب کے نا اہل وزیر اعظم ہر دوسرے دن بم کی بجائے کوئی بیان داغ دیتے تھے۔

ہم بچے بھی فرسٹریٹ ہو چکے تھے۔ اوہ بھئی غوری میزائل کیا شب برات پر پٹاخے چلانے کے لئے سینت رکھا ہے؟ کچھ تو کرو۔ کچھ تو تھرل ہو۔ ہم بھی بھارت مردہ باد کے نعرے لگائیں۔ اپنے خیالی امریکی دوستوں کے سامنے شو ماریں کہ دیکھو کتنے کول ہیں ہم۔ تم لوگ بس سہولیات میں ہی پھنسے رہو۔ ہم تو گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے وغیرہ وغیرہ۔

بالآخر اٹھائیس مئی انیس سو اٹھانوے کو وہ شبھ گھڑی آ ہی گئی جب ایٹم بم کا پٹاخہ بجایا گیا۔ ملک بھر میں خوشی کی نئی لہر دوڑ گئی۔ مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ بھارت مخالف نعرے لگے۔ہالینڈ سے ٹیکنالوجی لانے (چاہے جیسے بھی) والے سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے ہیرو قرار پائے۔ ان کے نام کے پوسٹ کارڈ بانٹے جانے لگے۔ نواز شریف صاحب نے بھی یہ تمغہ اپنی سرکاری شیروانی میں بالکل سامنے ٹکا لیا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ ابھی تک اسی کا ڈنکا پیٹا جاتا ہے۔ اسے میاں صاحب کا شوکت خانم سمجھ لیجئے۔

ہم سیاسی بچوں کی تو پوچھیں ہی نہ۔ ایکسائٹمنٹ کلاوڈ نائن پر فائز ہو چکی تھی۔ بس نہیں چلتا تھا کہ سڑکوں پر جلوس ہی نکال لیں۔ بہت تھرل تھا۔ ان دنوں سکول میں امتحان چل رہے تھے اور ہمارا بس نہیں چل رہا تھا کہ آپے سے باہر ہو جائیں۔

یہ دن تاریخ میں اس قدر امر ہو گیا کہ اس کا نام بھی رکھا گیا۔ حکومت کا بس چلتا تو چودہ اگست کی جگہ اسے یوم آزادی قرار دیتی۔

اب اس بات کو بیس برس گزر چکے ہیں۔ پتہ نہیں میرپور بھی اب کیسا ہے۔ وہاں کا موسم ابھی بھی خوشگوار ہے یا نہیں، ہم نہیں جانتے۔ لیکن ملک کے حالات بہت بدل گئے۔ ہم بھی بڑے ہو گئے۔ تھرل کی چاہ کچھ ٹھنڈی پڑ گئی۔ اب چیزوں کی سمجھ آنے لگی کہ وقتی تھرل کس قدر جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ اب یہ بھی پتہ چل گیا کہ ہم نے اس بم کی جو قیمت ادا کی وہ ابھی تک پوری نہیں ہوئی۔ جہاں باقی قوموں کی حفاظت ان کے ہتھیار کیا کرتے ہیں وہیں ہم اس بم کی خدمت اور حفاظت پر معمور ہیں۔ میاں صاحب کو بھی جاننا ہو گا کہ یہ منجن اب نہیں بکے گا۔

آپ دفاع میں بس یہی کہیں گے کہ ہم تو اس وقت بارہ برس کے تھے۔ تھرل کے کھوجی تھے۔ یہ دھماکہ کرنے والے بھی ہمارے ہی ہم عمر تھے کیا؟ لگتا تو یہی ہے کہ ان کے بھی پرچے ہی چل رہے تھے۔ دل ان کا بھی یہی تھا کہ سڑکوں پر نعرے لگائیں۔ تھرل کی چاہ انہیں بھی تھی جو اب تک پوری نہیں ہوئی۔ اور ہونی بھی نہیں ہے۔

میاں صاحب سے یہ گلہ رہے گا کہ دور اندیشی نہ دکھائی۔ اور ہم سب کو اس بم کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت کھڑے ہوتے تو آج کا دن مختلف ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).