سابق وزیرکی ڈائری


عزیزی ڈپٹی کمشنر کی ڈائری پڑھ کر ایمان تازہ ہو گیا۔ واللہ، ایمان افروز یادوں کی ایسی بارات اتری کہ اس پیرانہ سالی میں بھی خاکسار نے اپنی رگوں میں جوان خون دوڑتا محسوس کیا۔ ڈائری ہٰذا میں اس عاجز کا ذکر بھی کیا گیا ہے، جس نے ڈی سی صاحب کی افطار پارٹی میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرکے روضے کی فضیلت بیان کی تھی، بلکہ یہ تو ہم رفقائے مردِ مومن کا معمول تھا۔

عزیزی کی ڈائری کا ایک ایک لفظ گواہ ہے آپ ہمارے عہد کے قدرت اللہ شہاب رہے ہیں۔ جذبہ ایمانی سے سرشار ان کی تحریر نے مجھے بھی تحریک دی کہ اصلاح احوال کے اس دورکی کچھ یادیں خصوصاً نئی نسل کے ساتھ شیئرکروں تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے ماضی میں عظمت کیسے ہم پہ ٹوٹ ٹوٹ کر برستی رہی ہے۔

یاد آیا، اس افطار پارٹی کے بعد ڈپٹی کمشنر صاحب نے مجھ سے شکایت کی کہ ضلع کے سیشن جج صاحب بڑی ہی قنوطی قسم کی شخصیت ہیں، جنہیں دیانتداری کے کسی بہت ہی زہریلے بچھو نے کاٹ رکھا ہے۔

موصوف کی قوتِ شامہ میں کوئی ایسی ٹیکنیکل خرابی تھی کہ انتظامی مجسٹریٹ صاحبان کے فوجداری فیصلوں کی اپیلوں کی سماعت کے دوران انہیں اکثر ان میں گڑبڑ کی بُو آتی‘ جبکہ پولیس کو ان سے یہ شکایت تھی کہ صدرِ مملکت کے وژن کی روشنی میں جب وہ بغیر نکاح نامہ ساتھ رکھے کسی میاں بیوی کو آوارہ گردی کے دوران پکڑ کر حدود آرڈیننس کے تحت اندر کرتی تو جج صاحب ان ملزمان کی درخواست ہائے ضمانت کی سماعت کے دوران سیخ پا ہو جاتے اور اکثر اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ماورائے قانون فیصلے صادر کر دیتے۔

مجھے بتایا گیاکہ انہیں دوسروں کو خوفِ خدا یاد دلانے کا بڑا شوق ہے مگر خود ان کو کبھی کسی نے ضلع کچہری کی مسجد میں نہیں دیکھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے واپس آ کر صدر مملکت سے ان جج صاحب کے رویے کی بابت بات کی، جسے سن کر ان کی نورانی پیشانی شکن آلود ہو گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے کس سے بات کی مگر وہ صاحب پھر کھڈے لائن ہی رہے۔

شہید ضیاء الحق نے جمہوریت کو آداب خود شناسی ضرور سکھائے مگر نظام میں عدم مداخلت کی پالیسی ان کے دور کی پہچان تھی۔ ان کی دو پالیسیوں کے ثمرات ہم آج بھی سمیٹ رہے ہیں۔ ایک پاک صاف اور روادار مذہبی ماحول اور دوسری سیاسی معاملات میں عدم مداخلت۔ البتہ اصلاح احوال کی خاطر کیے جانے والے اقدامات الگ معاملہ ہے۔ ان کے بغیر سیاسی اور معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور ملکی حالات خراب تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مردِ مومن نے ملک کے کونے کونے سے صادق اور امین لعل و گوہر تلاش کرکے مجلس شوریٰ تشکیل دی اور غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے سیاست کو نئی نئی جہات سے روشناس کرایا۔ ہم نیاز مندوں نے ان کے وژن کی روشنی میں ملک کو پارسائی کے رستے پر گامزن کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ لا ریب! تاریخ صادق اینڈ امین مینوفیکچرنگ انڈسٹری اور شرپسند اینڈ غدار مینوفیکچرنگ انڈسٹری کا حقیقی خالق آپ ہی کو قرار دے گی، جو آج بھی مارکیٹ کے اندر اپنی پیداوار میں کمی نہیں آنے دے رہیں۔

اگر انتظامی حوالے سے بات کی جائے تو اس عظیم دور میں امن و امان، صحت و صفائی، قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کی صورتحال مثالی رہی۔ چیک اینڈ بیلنس کا ایسا کڑا نظام رائج تھا کہ ہم وزرائے کرام ہر ضلع میں جا کر کھلی کچہریاں منعقد کرتے، جہاں مقامی معززین ہماری حکومت کی انصاف پسندی اور عادلانہ اقدامات کی توصیف میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔

گاہے عوام کی طرف سے شکایات بھی کی جاتیں، مثلاً ہماری گلی میں بارش کا پانی کھڑا ہو جاتا ہے یا سیکرٹری یونین کونسل بھینسوں کے ڈیرے پر بیٹھ کر دفتری امور نمٹاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں ایسی درخواستوں پر سخت ایکشن لیتا اور موقع پر ہی احکام جاری کر دیتا۔ ایک دفعہ کھلی کچہری کے دوران بدمزگی بھی پیدا ہو گئی۔ وضع قطع سے تعلیم یافتہ اور سلجھا ہوا نظر آنے والا ایک بزرگ شخص کھڑا ہو گیا اور مجھے مخاطب کرکے گویا ہوا ”جناب عالی! ان کھلی کچہریوں کا انعقاد پولیس اور محکمہ مال والے کرتے ہیں، جہاں ان کے ٹائوٹ آپ کی خوشامد میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، جبکہ عوام کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا جاتا‘‘.

پولیس کے جوانوں نے اسے روکا مگر بابا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بولا ”حضور والا! ضلع بھر میں چوروں اور ڈاکوئوں کی چاند ی ہو گئی ہے، جرائم کی کاغذی شرح اس لیے کم ہے کہ پولیس مقدمات درج ہی نہیں کرتی، سرکاری دفاتر میں رشوت اور محکمانہ غنڈی گردی عام ہے، سرکاری ٹھیکوں میں حصہ بقدر جثہ کا اصول معمول کا چلن بن گیا ہے۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، مہنگائی اور تجاوزات جیسے جن ننگے ناچ رہے ہیں اور غریب عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں‘‘… پولیس اہلکار اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔

ایس پی صاحب نے مجھے تسلی دی کہ سر، آپ پریشان نہ ہوں، یہ بابا پاگل ہے اور سارا دن سڑکوں پر بھی ایسی ہی خرافات بکتا رہتا ہے۔ یہ سن کر میری جان میں جان آئی ورنہ بڈھے کی بکواس نے تو میرا خون ہی خشک کر دیا تھا۔ میں نے بابے کو پاگل خانے میں داخل کرانے کا حکم دیا اور سختی سے ہدایت کی کہ آئندہ کوئی ایسا بدتمیز شخص کھلی کچہری میں نہ گھسنے پائے۔

صدر مملکت نے انقلابی فیصلہ کیا کہ زندہ قوموں کی طرح ملک بھر میں یوم آزادی پورے جوش و خروش اور دھوم دھام سے منایا جائے گا۔ چونکہ عوام کی طرف سے ہماری حکومتوں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ انہیں جس طرف لگا دیا جائے، چل پڑتے ہیں، سو ہم نے اس سہولت کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ملک بھر میں زور و شور سے تیاریاں شروع ہو گئیں اور رنگ برنگی جھنڈیوں، قومی پرچموں اور ملی نغموں کی بہار آ گئی۔

14 اگست کی صبح ہم تمام رفقائے صدرِ مملکت نے دارالحکومت میں پرچم کشائی کی پُروقار تقریب میں شرکت کی، جہاں صدر صاحب نے قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد بیان کیے (جن لوگوں کی تاریخ کمزور تھی وہ بہت حیران ہوئے) رات کو میں نے ایک دور دراز ضلع میں مشاعرے کی ایک تقریب میں بطورِ مہمان خصوصی شرکت کی۔ خدا معلوم کہ یہ حبس زدہ موسم کی گھٹن تھی یا کوئی اور گھٹن کہ لوگ اس ادبی تفریح کے لیے دیوانہ وار گھروں سے نکل آئے۔ میں نے منتظمین کو سختی سے ہدایت کر دی تھی کہ فقط یوم آزادی اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے نظمیں وغیرہ پڑھی جائیں گی اور کسی کو کوئی غیر اخلاقی یا سیاسی قسم کا شعر سنانے کی ہرگز اجازت نہ ہو گی۔

مشاعرہ بڑا پُرامن جا رہا تھا کہ ایک شرپسند سی شکل کا شاعر زبردستی سٹیج پر آ گیا۔ اس نے دو شعر سنانے کی اجازت مانگی اور اپنی شکل کی طرح انتہائی واہیات نظم شروع کر دی:

عجب دن نیں، عجب راتاں
نہ گلشناں وچ گلاب مہکن
نہ دشت اندر سراب دہکن
نہ شام ویلے شراب لبھے
نہ کوئی سوہنی کتاب لبھے

دھت تیرے کی، وہ تو براہِ راست مرد مومن کے اس فلاحی دور کو ہِٹ کر رہا تھا۔ میں آگ بگولہ ہو گیا، یا حیرت! شراب اور کتاب تو اس اصلاحی دور میں بین ہیں، پھر اسے کیسے جرأت ہوئی کہ ان نامراد چیزوں کے ہجر کا دکھ سر عام سناتا پھرے۔ میں غصے میں مشاعرے کا بائیکاٹ کرتے ہوئے باہر آ گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ جعلی شاعر تھا اور اس نے محض شر پھیلانے کی خاطر سیاق و سباق سے ہٹ کر کسی اور شاعر کی نظم سنا دی تھی۔

یہ مجاہدین کا دور تھا، کوئی ملالہ یوسفزئیوں کا عہد نہیں کہ جس کا جی چاہے منہ اٹھا کر تلوار پر کتاب کی برتری کے دعوے کرتا پھرے۔ میرے حکم پر مقامی پولیس نے اس غدار کے خلاف ملک دشمن سرگرمیوں کی دفعات کے تحت تگڑا پرچہ دیا۔ کم بخت کو لمبی قید کے علاوہ بیس کوڑوں کی سزا ہوئی۔

بشکریہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).