میرے بچپن کی یادوں کے قاتل سنو


کراچی شہر اب وہ رہا ہی نہیں جو آج سے بیس برس قبل تھا، جہاں ٹھنڈی ہوا کے لئے ساحل نہیں گلی محلے کے کسی بھی پارک میں بیٹھ کر بھری دوپہر ہو یا پھر رات، جھولوں پر کھیلتے بچے ہواوں سے ہلتے بلکہ جھومتے ناچتے درختوں کو دیکھ کر آپس میں کہا کرتے تھے کہ دیکھو دیکھو یہ درخت کتنا ہل رہا ہے اس پر کسی بھوت یا آسیب کا سایہ ہے۔ پھر وہ پارک شہر میں خون کی ہولی شروع ہونے پر ویران ہوتے گئے۔ پہلے گھاس سوکھی، پھر بینچیں چوری ہوئیں اور چند برسوں بعد کچھ نامعلوم افراد آئے اور درخت کاٹ کر لے گئے۔ ہائے وہ میرے نیم اور پیپل کے درخت جس کے سائے تلے لگے جھولوں پر میں اپنی سکھیوں کے ساتھ گڑیا گڈے کی شادی کے معاملات طے کرتی تھی۔ جب چودہ اگست آتا تو ہم سہیلیاں ملکر کورس میں ملی نغمے گاتیں، جب ربیع الاول آتا تو ہم یہ طے کرتیں کہ کس کے گھر پہلے میلاد شریف ہوگا اور کون کونسی نعت پڑھے گا؟

میرے بچپن کا سایہ تو چھینا ہی گیا ساتھ ہی اس سے منسوب میرے خواب، اپنی سہیلیوں سے ملنے کا بہانہ، سرسراتے پتوں اور ہوا کی موسیقی سن کر چاند کو دیکھنے کی عادت بھی وہ ساتھ لے گئے، کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ اگر ان درختوں سے ماچس بنائی گئی ہوگی تو میرے خواب تو تڑپ تڑپ کے جل کر خاک ہوگئے ہوں گے، اگر اس سے کئی بے جان شے بنائی گئی ہوگی تو وہ سرسراتے پتے جب اس لکڑی سے الگ کیے گئے ہوں گے تو وہ سوکھتے وقت آخری بار بجھنے والی پیاس کو یاد کرتے ہوں گے، کتنی چڑیوں کے گھونسلے اس روز گرے تھے جب وہ درخت کٹے تھے۔ مجھے یاد ہے وہ بھری دوپہر جب اچانک ہمارا محلہ کووں اور چڑیوں کے احتجاج اور شدید نعرے بازی سے گونج اٹھا تھا، ان کی بے وقت کے شوروغل سے اس روز بلیاں بوکھلائی پھر رہی تھیں۔

گھروں کے دروازے کھلے اور عورتیں پوچھ رہی تھیں کہ کیا ہوا ہے جو اتنا شور مچا ہے۔ پھر شام کو معلوم ہوا کہ شہر کی ویرانی کو خود میں سمیٹتا ہوا وہ پارک اور اس میں جیتے جاگتے وہ درخت جو اپنے سائے تلے کبھی نغمے سنتے تو کبھی حمد و ثناءسے جھومتے تھے، طویل انتظار کے بعد مر گئے اور گدھ ان کی لاش کو نوچ نوچ کر چھوٹی بڑی گاڑیوں میں لادتے جارہے تھے اور علاقے سے نکلتے ہوئے اس کی دم توڑتی شاخوں نے آخری بار ہر اس گلی کو الوداع کیا جہاں سے بچوں کے غول ان پارکوں میں جاکر ان ہرے بھرے درختوں کے ناچنے گانے کو آسیبو ں سے مشروط کرتے تھے۔ یہ درخت یہ معصوم الزام سن کر خوب قہقہے لگاتے تھے۔ ہم جب نیم کی خوب ساری شاخیں توڑ کرجھاڑو بناتے اور بینچوں پر پڑنے والی گرد صاف کرتے تھے تو کبھی کسی نیم کے سسکنے کی آواز نہیں آئی۔ ہم جب سفیدے کے پتے توڑ توڑ کر سونگھا کرتے تو کبھی کسی سفیدے نے اپنے آسیب سے کہہ کر ہمیں جھاڑ نہیں پلائی۔ ہم جب بیریوں کو اس کی شاخوں سے نوچتے تھے تو کبھی زخمی بیر نے ہمیں بددعا نہ دی۔ لیکن جس روز ان کا قتل عام ہوا اس روز ہر پرندے نے دہائی ڈالی ہر چڑیا نے بدعائیں دیں۔

میں پچھلے برس اسی کوڑے سے بھرے پارک جس میں اب کوئی درخت نہیں یوں ہی بے سبب ٹہلنے جا پہنچی، زنگ آلود ٹوٹے پھوٹے جھولے دیکھ کر آنکھیں بھر آئیں۔ اپنا بچپن ان جھولوں کے اردگرد بھاگتے دکھائی دیا پر وہ درخت نہ ملے جن کی اوٹ میں ہم اکثر تب چھپ جایا کرتے تھے جب امی سمیت محلے کی کئی آنٹیاں آواز لگاتی تھیں کہ چلو بچوں اب گھر جانے کا وقت ہوگیا رات بہت ہوگئی صبح اسکول بھی جانا ہے۔ گھٹن بڑھی، سانس لینا محال ہوا، رات میں چلنے والی ہوا بھی مجھے رومانوی نہ لگی۔ آسمان پر نکلا چودہویں کا چاند بھی مجھے اداس سا لگا تو میں گھر کو آگئی۔

آج موسم کی خبر دیتے ہوئے سارے شہر کو بتاتی ہوں کہ آج سمندری ہواوں کی رفتار اٹھارہ سے چھتیس کلومیٹر فی گھنٹہ رہے گی لیکن کسی درخت کی ہوا سے ہونے والی کھسر پھسر اور پتوں کا ہوا کو چھو کر لجانا شرمانا میں محسوس نہیں کر پاتی۔ کیونکہ میرے اردگرد درخت نہیں۔ کہیں دور کسی کے گھر کے لان میں یا کسی تاریخی عمارت کے احاطے میں لگے پرانے قدیم درخت نظر تو آتے ہیں پر ان کا سایہ تو ان کے مکینوں کو یا اس عمارت کی دیکھ بھال کرنے والوں کو ہی میسر ہوتے ہوں گے۔ بچپن میں ایک بار ابو سے سنا تھا کہ جو درخت گھر میں لگے ہوں ان کے نخرے بہت ہوتے ہیں ان کو ہر وقت اپنی اہمیت جتانے کا شوق ہوتا ہے۔

ایسے ہی جیسے ہم امی ابو کے سامنے نخرے کرتے ہیں، پر یہ جو پارک میں لگے درخت ہوتے ہیں یہ دل کے بڑے اچھے ہوتے ہیں ہر ایک کو سایہ دیتے ہیں، نہ ضدی ہوتے ہیں نہ ان میں اکڑ ہوتی ہے دیکھو ذرا کیسے جھک جھک کر ملتے ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ اپنے برابر والے درخت سے خوشی سے گلے مل رہے ہوں۔ میں نے ایک دن غور کیا تو پتہ چلا وہ ٹھیک ہی کہتے تھے۔ پھر اپنے گھر کا درخت دیکھا جس پر پھل تو آتا ہے پر کوئی توڑتا نہیںیہاں تک کہ وہ خود گل کر سڑک پر آگرتا ہے، کبھی کوئی بچہ اس کی اوٹ میں چھپا نہیں کبھی اس کے سائے میں دیر تک بیٹھا نہیں۔ اکر کوئی بھولے بھٹکے بیٹھ بھی جائے تو ہمیں اس کے مشکوک ہونے پر یقین ہونے لگتا۔ گھر کا کوئی مرد اس سے پوچھ گچھ کرتا۔ ان سب باتوں نے گھر کے درختوں کو کافی مغرور اور بد دماغ بنادیا ان کا بڑا رعب بن گیا۔

لیکن ایک بات مجھے بڑا دکھ دیتی ہے کہ جو جھکے اسے کمزور کیوں سمجھا جاتا ہے؟ جو سب کے کام آئے اسے ناکارہ کیوں مانا جاتا ہے۔ جو سب کو خوشی دے اسی کو دکھ اور تکلیف کیوں دی جاتی ہے؟ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم پارکوں، فٹ پاتھوں، شاہراہوں میں لگے دوست درخت کیوں کاٹتے؟ اس لئے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں، اس لئے کہ وہ ہمدرد تھے اور ہمدرد کو ہمیشہ ہی مجبور اور بے کس سمجھا جاتا ہے۔ وہ پارک جہاں کبھی سبزہ ہی سبزہ تھا آج گھاس تو ہے یا کونو کارپس کی جھاڑیاں لیکن وہ ٹھنڈک اور سکون دینے والے سائے نہیں جس کے تلے ظالم دھوپ سے بچنے کے لئے مزدوری کے بعد کوئی محنت کش جسم کو آرام دینے کے لئے سستا لیتا تھا۔ اب وہ چوڑی چھاتی لیا تنا نہیں جس کے سینے پر ہم دوست اپنے ناموں کے پہلے حروف یا پورے پورے نام لکھ لیا کرتے تھے اور قسم کھاتے تھے کہ یہ لازوال دوستی مرتے دم تک قائم رہے گی۔

کراچی میں جب سے گرمی نے اداروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ بتایا کہ میں بھی اب اس شہر کا اسٹیک ہولڈر ہوں اور جب چاہوں تو تم سب کی کارکردگی کو خاک میں ملا سکتا ہوں تب سے ادارے ہائے رے گرمی ہائے رے گرمی کے نوٹیفیکشن جاری کرکے اپنا فرض پورا کرنے لگ گئے ہیں۔ کوئی خدا ترس سڑک کنارے ہزاروں روپے کا پانی کولر میں بھر کر عوام کی پیاس بجھا کر ان سے دعا کی درخواستیں کرتا ہے تو کوئی اسپتال میں ادویات عطیہ کر کے آسمان کی جانب دیکھ کر خدا سے کہتا ہے اے رب تو دیکھ رہا ہے ناں میں خلق خدا کے لئے کتنا بڑا دل رکھتا ہوں، روز محشر مجھے جہنم کی آگ سے بچائیو۔ لیکن جو آگ اس شہر میں لگی ہے اس کا حل جس نے جیسے چاہا نکال لیا یہ نہ سوچا کہ خلق خدا کو دوائیں، گلوگوز اور پانی دینے سے ثواب مل تو جائے گا لیکن یہ وقتی کوشش ہے۔ اس شہر کے لوگوں سے اگر کوئی مستقل دعا کروانی ہے جو جہنم کی آگ کو ہمیشہ کے لئے ٹھنڈا کردے تو وہ سایہ دیتے درخت ہیں جو اگر آج لگادیے جائیں تو ان کی چھاوں آنے والے کئی برسوں تک ہماری نسلوں کو سانس لینے کے قابل بنائے رکھیں گی۔ جو بھی اس کے سائے تلے بیٹھے گا خدا کا شکر ادا کرے گا اور نیکی شجر لگانے والے کے کھاتے میں ڈال دی جائے گی۔

مضمون کا بقیہ ھصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar