اسد درانی کو ایک عام سی کتاب پر بہت زیادہ شہرت مل گئی ہے: تجزیہ کار طلعت حسین


حالیہ کچھ عرصے سے پاکستان کی فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ نے فوج پر ’جبری گمشدیوں اور پشتونوں کے قتل‘ جیسے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ پاکستان کی فوج کو تین مرتبہ منتخب ہونے والےسابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف بھی ایک انتہائی جارحانہ مہم چلانے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی کتاب ’دی سپائی کرونکلز‘ نے کم از کم پاکستان میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔

کئی سیاست دانوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہا ہے کہ نواز شریف کو غدار کہنا بہت آسان ہے لیکن ایک سابق فوجی کا دشمن ملک کے خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کے ساتھ کتاب تحریر کرنا انہیں کیوں غدار نہیں بناتا؟ شاید یہی وجہ ہے کہ اس بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر پاکستان کی فوج نے گزشتہ روز درانی کو آرمی ہیڈ کوارٹر طلب کیا اور ان کے خلاف تحقیقات شروع کرنے اور ان کا نام کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسد درانی نے کہا،’’مجھے تنقید کا جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ میں نے ایک کتاب مشترکہ طور پر تحریر کی ہے۔ اگر کسی سویلین نے ایسی کتاب تحریر کی ہوتی اور اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تو یہ اس پر منحصر تھا کہ وہ کیا ردعمل دیتا۔‘‘

پاکستان کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ نے اپنی کتاب میں اسامہ بن لادن پر بھی بات کی ہے۔ درانی لکھتے ہیں،’’آئی ایس آئی کو اسامہ بن لادن کے بارے میں معلوم تھا اور ایک مشترکہ معاہدے کے تحت آئی ایس آئی نے اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے حوالے کیا۔‘‘ یہ بیانیہ پاکستان کے سرکاری بیانیے سے بالکل مختلف ہے، جس کے مطابق پاکستان کو اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں کچھ بھی علم نہ تھا۔

 درانی کو اس بیان پر بھی خاصی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ جب ڈی ڈبلیو نے ان سے پوچھا کہ کیوں پاکستان کی فوج نے اسامہ بن لادن کی حوالگی میں اپنا حصہ ظاہر نہیں کیا اور دنیا کے سامنے دہشت گردی کی جنگ میں تعاون فراہم کرنے والے ملک کے طور پر اپنے آپ کو ظاہر نہیں کیا ؟ تو ان کا کہنا تھا،’’میں نے اپنا تجزیہ دیا ہے، جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔ کسی بھی صورت میں انتہائی غیر معمولی فیصلوں کو ’اچھا تاثر‘ قائم کرنے کے لیے نہیں لیا جاتا۔‘‘

اپنی کتاب میں اسد درانی نے کشمیر پر بھی تفصیلی گفتگو کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت کے مفاد میں ہے کہ ’اسٹیٹس کو‘ قائم رہے، وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے۔ تاہم بھارت کے زیر انتطام کشمیر میں حالیہ مزاحمت کے بڑھنے کے نتیجے میں کیا مستقبل میں بھارت ’اسٹیٹس کو‘ توڑ سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے درانی نے ڈی دبلیو کو بتایا،’’ اگر حالیہ مزاحمتی تحریک کنٹرول کر لی جاتی ہے تو بھی بھارت اپنے مفاد میں کسی اور سطح پر ہی سہی لیکن ’اسٹیٹس کو‘ قائم رکھنا چاہے گا۔‘‘

اسدر درانی نے اپنی کتاب میں کارگل کو ایک ناکام آپریشن کہا۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مشرف کو کارگل میں حد سے زیادہ دلچسپی تھی اور نواز شریف اس حوالے سے زیادہ معلومات نہیں رکھتے تھے۔ اس بارے میں درانی نے ڈی ڈبلیو کوبتایا،’’نواز شریف اور مشرف دونوں پر کارگل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے اپنی کتاب میں پاکستان کے سیاسی نظام اور سیاست دانوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ جب ڈی ڈبلیو نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں سیاست دانوں کو ناپسند کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا،’’ یہی تو کوشش کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی نطام کو بہتر بنائیں تاکہ صحیح لوگ سامنے آ سکیں۔‘‘

درانی یہ بھی کہتے ہیں کہ ماضی میں بھارت اور پاکستان کے مختلف مذاکراتی فارمولے ناکام رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کی ایسٹیبلشمنٹس میں سے ایک ایک شخص کو مذاکراتی عمل آگے لے کر بڑھنا ہوگا۔ درانی کی اس کتاب پر اپنا تجزیہ دیتے ہوئے پاکستانی صحافی سید طلعت حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’درانی کے خیالات میں حقیقت کم ہے اور جوش زیادہ۔‘‘ طلعت حسین کا مزید کہنا تھا،’’را کے سابق چیف کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان کے ہر ادارے پر تنقید کرنا اور اپنے ملک کے رہنماؤں کو نیچا دکھانا ایک انتہائی بیوقوفانہ عمل ہے۔‘‘ طلعت حسین کی رائے میں درانی کو ایک عام سی کتاب پر بہت زیادہ شہرت مل گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).