محبت کی زبان ممتاز ہے ساری زبانوں سے


 یہ اپنی نوعیت کا پہلا بلاگ نہیں ہے۔ نہ ہی آخری ہے۔ پہلا اس لئے نہیں کہ اس بات کی شروع دن سے فکر کی جا رہی ہے۔ آخری اس لئے نہیں کہ کون سا یہ مسئلہ حل ہو جانا ہے۔ بڑھنے کا قوی امکان ہے۔ گھٹنے کا۔۔۔ چلئے جانے دیجئے۔ پھر ہم ہی پر الزام آئے گا کہ قنوطیت ان کی فرسٹ کزن ہے۔ ہم خود بھی اس مسئلے پر پہلے لکھ چکے ہیں لیکن ضمیر کا تقاضا ہے کہ بار بار لکھا جائے۔

انسان چالیس برس کی عمر کے بعد بہت سی باتیں دہرانے لگتا ہے۔ ابھی ہمارے ہاتھ میں کوئی آٹھ سال ہیں لیکن لگتا ہے مڈ لائف جلد ہی شروع ہو گئی۔ پھر سے وہی قصہ دہرائیں گے۔ وہی اپنے بچپن والا۔ وہی زبان اور ثقافت پر شرمندگی والا۔ پنجاب میں رہنے والے بہت سے لوگوں کے برعکس ہماری مادری زبان پنجابی نہیں اردو ہے کیونکہ والدہ کا تعلق ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے اردو بولتے یوسفزئی قبیلے سے تھا۔ باوجود اس کے کہ ان کا بیاہ ایک ٹھیٹھ سرائیکی خاندان میں ہوا جس میں انہوں نے گھل مل جانے کی حتی الامکان کوشش کی (اس قدر کہ سسرال میں اردو سے مکمل گریز کرتی تھیں) امی کی بہت سی باتیں پھر بھی شدھ اردو میں تھیں۔ اپنے گھر والوں میں جاتیں تو یہ سب بہنیں اور نانی اپنے خاص لہجےمیں ہی بات کرتیں۔ بہرحال بچوں کے سامنے لہجہ بدل لیا جاتا۔ پھر بھی کچھ محاورے ابھی تک ہمارے کانوں میں گونجتے ہیں۔ کاش اور بھی ہوتے تو ہماری تحریر میں زیادہ اثر ہوتا۔

نانی ہم بہن بھائیوں کی اردو پر ناگواری کا اظہار ہی کیا کرتی تھیں کہ ان کو تو ‘قیمہ’ کہنا بھی نہیں آتا۔ آلو ‘کیمہ’ کھاتے ہیں۔ امی کی پیدائش پنجاب کی تھی لہذا پنجابی سیکھ چکی تھیں لیکن نانی کو اپنی اردو پر اس قدر ناز تھا کہ انہوں نے یہاں کی لوکل زبان سیکھنا مناسب نہ جانا۔ رسمی تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود لکھنے پڑھنے کی شوقین تھیں۔ دیوان غالب حفظ تھا۔ اپنے سب ہی بچوں کو بھی انہوں نے خوب اعلی تعلیم دلائی۔ جہاں تک ہمارا تعلق تھا تو ہم دو تہذیبوں کے بیچ کی کشتی کے مسافر تھے۔ ایمان روکتا تھا اور کفر کھینچتا تھا۔ جہاں ایک طرف امی کی اردو تھی وہیں دوسری طرف ابا کی سرائیکی تھی۔ باوجود اس کے کہ گھر کی زبان اردو ہی تھی ابا کو اس بات کا بہت احساس تھا کہ کہیں بچے اردو ہی میں نہ کھو جائیں۔ گھر کے نوکر ہمیشہ گاوں سے بلائے جاتے تھے جو ہم سے اسی زبان میں بات کرتے تھے۔

امی کا تعلق ہندوستان میں تحصیل روہتک ضلع جھجھر سے تھا۔ پنجابیوں میں خود کو ممتاز جاننے کے باوجود یہ لکھنو والوں کے رعب میں رہتے تھے۔ بچوں کے سامنے جھٹ لہجہ بدل لیتے۔ ادھر ہمارا سرائیکی ددھیال کسی بھی اردو بولنے والے کے سامنے دب سا جاتا تھا۔ یا شاید ہمارے دماغ میں یہ چیز بن چکی تھی کہ یہ تہذیب کمتر ہے۔ بچپن میں جب بھی ہمارے دوست گھر آتے ہم اپنے گاوں والے رشتے داروں سے شرماتے ہی پھرتے کہ کہیں دوست ہمارا مذاق نہ اڑائیں۔ ہم کون تھے یہ ہم نہ جانتے تھے۔ جب ذرا ہوش اور شعور کی دنیا میں داخل ہوئے تو احساس ہوا کہ ہم کس قدر نقصان اٹھا چکے تھے۔ دو گہری تہذیبوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ہم کسی ایک زبان پر بھی عبور نہ رکھتے تھے۔ نہ ہمیں روہتک کے ٹھیٹھ محاورے ازبر ہوئے اور نہ ہی سرائیکی زبان کے دوہڑے آئے۔ زبان پر شرمانا ہم سے ہماری وہ متاع چھین گیا جو ہم کبھی واپس نہیں لا سکتے۔

انگریز ہم ہیں نہیں اس لئے انگریزی میں تو ان کے ہم پلہ ہونے سے رہے۔ لیکن جو اپنا تھا جس روایت کو آگے بڑھا سکتے تھے اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ انگریز انگریزی کے ساتھ ساتھ فرنچ اور اسپینش بھی سیکھے (جو کہ اس کی زبان بھی نہیں) تو فخر سے اترائے پھرتا ہے۔ لیکن ہمارا ملک جس میں زیادہ تر لوگ دو سے زائد زبانیں باآسانی بول سکتے ہیں اپنی ہی مادری زبان پر شرماتے ہیں۔ انگریز فرنچ سیکھے تو مہذب ہمارا بچہ اپنی ہی زبان پنجابی بولے تو پینڈو۔ چارپائی کو منجی کہنے والے بچے کے ساتھ تو کوئی اپنے بچوں کو کھیلنے بھی نہ دے۔

ہمارا تو جو نقصان ہوا سو ہوا۔ آپ سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو اپنی تہذیب سے دور مت کیجئے۔ انہیں اپنی زبان پر فخر کرنا سکھائیے۔ بھلے وہ کوئی بھی ہو۔ اگر ہماری طرح دو مختلف تہذیبوں سے تعلق ہے تو دونوں زبانیں سکھائیے۔ یہ بات کہ انگریزی کو انٹرنیشنل زبان کہا جاتا ہے تو یہ ہر کوئی سیکھ ہی لیتا ہے۔ اپنی زبان اپنی پہچان ہے۔ کھو گئی تو واپس نہ لوٹے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).