جنسی ہراسانی ….  شش…. خاموش رہو


تیسری یا چوتھی کلاس سے مجھے علم ہوگیا تھا کہ میرے جسم کے خدوخال کا نمایاں ہونا میرا جرم بلکہ انتہائی شرمناک بات ہے۔ ان کو نہ صرف چھپانے کا، بلکہ ان سے ایک عجیب سی نفر ت کا تعلق بھی بن چکا تھا۔ کوئی ہاتھ چلتے چلتے لگ جائے، تو سوچتے رہنا کہ لازمی غلطی سے لگا ہوگا، بلکہ کوئی ایسے کیوں کرے گا۔ بس یہ سمجھ آگیا کہ خود کو چھپا لو، مگر ہم سب کے چاروں طرف ایسی نظریں تھیں کہ دوپٹے کے اندر اور باہر آر پار، ہاتھ ایسے کہ خاموش چھپے ہوئے بھیڑیے، یہ بات صرف میری نہں میری تمام کلاس فیلوذ، فرینڈز کا ایک ان کہا ادھ بولا مشترکہ تجربہ تھا۔ ہم سب نے خود کو صرف بچانے کی جنگ قبول کر لی تھی یہ وہ واحد چیز ہے اور وہ تجربہ ہے جو وقت گزرنے کے باوجود معاشرے کی سوشل لیبارٹری میں، جوں کا توں ہے۔ ریسرچر کی حیثیت سے ایک اہم سبق سیکھا کہ 5 سال سے پرانی تحقیق کا حوالہ دینا کوئی خاص لوجیکل نہیں مانا جاتا، مگر جنس ہراسانی میں نسل در نسل ایک ہی تجربہ قائم ہے۔

تین گز کا ایک پورا تھان لیا جاتا ہے تاکہ کوئی نظر نہ ڈال سکے، پھر بازار کے لئے کچھ ایسا لو کہ حفاظتی اقدام میں کمی نہ رہے، پھر بھی ہاتھ اور کندھے کی مار سے بچنے کے لیے، تمام تر اقدام ایک عورت کی سیکنڈ نیچر میں رچ بس چکے ہوتے ہیں۔ قاری صاحب، سکول کا چوکیدار، کینٹین والا، کار پارکنگ والا، دوکاندار، کزن، ٹیوشن ٹیچر ان سب سے بچنا آپ کی ذاتی ذمہ داری ہے، بہت ہو گیا تو سہیلی سے راز و نیاز کر لیے، دو دن گم صم رہ لیا اور بس۔

یہ جنسی ہراسانی آخر کیوں ہوتی ہے، اس پر کوئی خاص تحقیق نہیں ہوتی۔ ہر بات کے پہلو دو ہیں ایک سائنٹفک ریسرچ پر مبنی حقیقت اور دوسرا معاشرتی مفروضے۔ معاشرتی مفروضے مطلب سوشل سٹیریو ٹائپ۔ غیر ترقی یافتہ سوسائٹی میں مفروضے یعنی سوشل سٹیریو ٹائپ پر تمام تر سوشل رسم و رواج اور کلچر کی بنیاد بن جاتے ہیں، جبکہ ترقی یافتہ ممالک، سائنٹفک ریسرچ اور پروفیشنل تحقیق پر سوسائٹی کی بنیاد رکھتے ہیں۔

جب یورپ میں پہلا پرنٹنگ پریس کھلا تو وہاں پر بھی طوفان مچا، بائبل کے پرنٹ ہونے پر چرچ نے سخت ردعمل دیا۔ کتاب کے پیبلشر کو پھانسی کی سزا تجویز کی گئی۔ دو جنگوں اور بے حد مسائل کے بعد وہ سمجھ گئے کہ مسئلے کا حل، معاشرے میں طاقت کے بے جا استعمال اور چند عناصر سے بلیک میل ہونے میں نہیں۔ تین صدیاں لگ گئیں ان کو ڈارک ایج سے باہر آنے میں، ان گنت عورتوں کو وچ کرافٹ کے نام پر قتل کیا گیا، وکٹورین زمانے میں بھی عورت کو محض ایک شو پیس کا درجہ ملا۔

سوسائٹی کا بدلنا کوئی اتنا آسان عمل نہیں، اس کے لیے کافی بنیادی تبدیلی چاہیے تھی۔ سیفروجسٹ کی تحریک آئی جو ووٹ اور جائیداد کے حق پر مبنی تھی، پھر کئی سوشل موومنٹ آئیں، جن کا مقصد تھا معاشرے کے طاقت کے توازن کو مناسب کرنا۔ کسی کو بھی کم زور بنا دینا اور کسی کو طاقت ور یہ فارمولا صرف بادشاہ کے حق میں جاتا ہے، اس کا فائدہ صرف طاقت ور کو ہے، کمزور کو نہیں۔ بہرحال مسائل پر بحث ہونے سے سب سے بڑا فائدہ ہوتا ہے کہ ان کا حل اور ان کے بارے میں شعور پیدا ہوتا ہے۔ ان تمام سائنٹبک ریسرچ کے علاوہ سوشل مسائل میں جنسی ہراسانی پر بھی کافی ریسرچز ہوئیں۔

ریپ، جنسی ہراسانی پر ہونے والی انٹرنیشنل ریسرچ میں ایک بات مشترکہ ہے، تمام ملزمان نے ایک ایسی بات کا ذکر کیا کہ جو ہر کیس میں موجود تھی، ایک جنرل فیکٹر جو سب نے بیان کیا، ریپ، جنسی زیادتی یا ہراسمنٹ میں عورت، لڑکی یا کم سن بچی کا صورتحال پر گھبرا جانا، شک میں رہنا مگر خاموش رہنا اور مجرم کا یہ یقین ہونا کہ وہ لڑکی باآسانی خوف زدہ ہو جائے گی۔ ایسا مجرم بذات خود ڈرپوک ہوتا ہے اس لیے، ایسی سچوئشن پیدا کرتا ہے کہ اس کا ٹارگٹ اکیلا ہو۔ بعد ازاں بھی وہ اپنے ٹارگٹ کو دھمکا اور ڈرا کر رکھتا ہے۔ یہ کافی لمبی ریسرچز ہیں اور میرے حالیہ پراجیکٹ کا ٹاپک بھی ہے۔ میں صرف چند ضروری باتیں شئیر کروں گی۔ شروع سے جنسی ہراسانی کو ایک ایسا ٹاپک بنا دینا جس میں، زیادتی برداشت کرنے والا، الٹا لعن طعن بھی برداشت کرے، ہمیشہ ایسے مجرموں کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ یہ اس سوال کا بھی جواب ہے کہ آج کل ہر طرف جنسی جرم کا شور کیوں ہے ….

جب آپ ایک عرصے تک ایک جرم کا اور طاقت کے استعمال کا خاموشی سے ساتھ دیں تو پھر آدم خور شیر اگر روز گاﺅں میں گھس کر شکار نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ دراصل ہماری سوسائٹی میں لڑکی پر عزت کا داغ سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یہ باڈی سیفٹی اور جنسی حفاظت سکھانے سے ڈرنا کافی حوصلہ افزا ہے کسی بھی مجرم کے لیے، اوپر سے خاموشی کا تڑکا، کام بالکل آسان ہو جاتا ہے۔

ڈر اور خوف اس شکاری کے دوست ہیں۔ اپنے جسم کے بارے میں خوفزدہ رہنا اور اس بات پر کبھی بھی ایسا کوئی شعور اور ہمت کا نہ ملنا کہ آپ کو نامناسب ٹچ پر چیخنے کا اختیار ہو، اکیلے جانے یا اکیلے ہونے پر بھاگ جانے کی ہمت ہو، فضول کمنٹ پر شکایت کا راستہ ہو ….

یہ وہ کچھ بنیادی باتیں ہیں جو ایک مجرم کا راستہ آسان کرتی ہیں۔ اب ایک منٹ کے لیے سوچیے کہ ہم کتنی صدیوں سے اس جرم کا راستہ بنا رہے ہیں۔ بچوں کو پرائیوٹ باڈی پارٹ کے بجائے صرف شیم شیم سکھاتے ہیں، یہ کوئی شیم شیم نہیں جسم کا پرائیوٹ حصہ ہے اور بچے کو اس کی حفاظت سکھانا ضروری ہے، کبھی ہم کہتے ہیں کہ تم بڑی ہو گئی ہو، بس زرا چپ رہا کرو، کبھی ہم کہتے ہیں کہ کیوں تمہارے ساتھ ایسا ہوا، باقی بھی تو ہیں۔۔۔ مطلب بہرحال ہر قسم کے جنسی جرم کے لیے ایک آسان شکار موجود ہے۔

شش خاموش رہو…. بس ایک لڑکی کے لیے یہ جملہ کافی ہے، اب چاہے وہ بچیاں کالج میں پریکٹیکل دیں یا سڑک پر ہوں، ٹیچر کا کمرہ ہو یا گھر کی چاردیواری میں ذاتی ملازم، آفس کا ٹی بوائے ہو یا بچوں کے قاری یا ٹیچر بس شش…. خاموش رہو۔ کبھی نمبر کا مسئلہ، کبھی ہوسٹل سے باہر نکال دے جانے کا مسئلہ…. کبھی تعلقات خراب ہونے کا مسئلہ، بہتر ہے خاموش رہو، اچھی لڑکیاں زیادہ بولتی نہیں۔ اب لڑکیاں چاہے پریکٹیکل میں موجود 150 کی تعداد میں ہوں یا اکیلی، ڈرا کر خاموش کرا دینا ان کو کمزور کردیتا ہے۔

اور اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ اتنی صدیوں کی خاموشی غلط تھی تو پھر خوب شور مچائیں اور شور مچانا سکھائیں، پرانے زمانے میں بھیڑیے کو ڈرا کر بھگایا جاتا تھا، خاموش رہ کر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).