حسد کا روحانی کینسر


حاسد سے بڑا احمق کوئی نہیں ھوتا۔ پاگل کا پتر بلا وجہ سامنے والے کی ترقی سے جلتا رھتا ہے، الزام تراشی کرتا ہے۔ سامنے والے کی ذات میں کیڑے نکالتا ہے۔ نیچا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے پر بےسود۔ کچھ حاصل وصول نہیں ھوتا ھاں حاسد خود شوگر دل کے امراض اور بلڈ پریشر کا مریض ضرور ہو جاتا ہے۔

بابا دین محمد نے توقف کیا تو میں نے سوال داغا بابا جی حاسد ایسا کرتا کیوں ہے؟

بابا بولا بیٹا حاسد بنیادی طور پر ایک نااھل اور ہڈ حرام شخص ھوتا ہے جو زبانی کلامی ترقی کرنا چاھتا ہے۔ خود کو افضل سمجھتا ہے اور دوسرں کو ادنی۔ اسی لئے تو ترقی کرنے والے کو برا بھلا کہتا پھرتا ہے۔ دراصل حاسد ایک متکبر انسان ھوتا ہے۔

جو خود کو اعلی مانتا ہے۔

میں نے کہا بابا جی حاسد کوئی بھی ہو سکتا ہے؟

بابا بولا ہو تو کوئی بھی سکتا ہے مگر ستانوے فیصد حاسد ھمارے خاندان ھمارے عزیزوں اور دوستوں میں پائے جاتے ہیں۔ میل ملاپ والا کوئی آگے نکل جائے تو حاسد کی جان نکل جاتی ہے۔ جاں بلب ھوجاتا ہے۔ ٹانگیں کھینچنے لگتا ہے۔ گرانے کی کوشش میں کوشاں ہو جاتا ہے۔

یاد رکھنا حاسد بیک وقت منافق بھی ھوتا ہے۔ آپ کے منہ پر آپ کی تعریف کرتا ہے اور پیچہے برائی کرتا ہے۔

 میں نے کہا بابا جی میرے عزیز واقارب اور دوست تو بہت اچہے ھیں مجہے بہت سپورٹ کرتے ہیں۔ میری خوشی میں خوش ھوتے ھیں۔ میری ترقی پر فخر کرتے ھیں۔ بابا بولا بیٹا تو قسمت والا ہے جو تجہے اتنے ولی صفت دوستوں کی صحبت حاصل ہے۔

پھر کچھ سوچ کر بولا افتخار افی اگر حاسد اور منافق سے پالا پڑ جائے تو “میرے لئے اللہ ھی کافی ہے” کہہ کر آگے بڑھ جانا۔ کیونکہ اس کے بعد اللہ کی عدالت سوموٹو لیتی ہے اور جس کے خلاف اوپر سے سوموٹو ھوجائے توبہ توبہ۔ بابا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے بابا جی کو اپنا ایک شعر سنایا

حاسد ہے، بدگمان ہے، تکلیف میں ہے وہ

یارب مرے رقیب کو صبر جمیل دے

بابا نے بہت داد دی بولا یہ اثر ہے بابا اشفاق صاحب کی صحبت کا کہ حاسد کےلئے بھی دعا واہ واہ۔

میں نے پوچھا بابا جی حاسدوں کا علاج کیا ہے؟

بابا بولا بیٹا یہ لاعلاج ہے ہاں بزرگوں کا ایک ٹوٹکا ہے کہ حاسد سے میل ملاپ کم کردو اور کوشش کرو کہ ترقی کا عمل نہ رکے۔ حاسد سے جب ملو اسے خوشخبری سنا دو۔ میں نے کہا بابا جی اس سے کیا ھوگا؟

بابا بولا تمھاری کامیابی حاسد کی نیندیں حرام کر دے گی۔ وہ انگاروں پر لوٹے گا۔

میں نے پوچھا بابا جی کیا یہ ظلم نہیں ہے

بابا بولا نہیں بیٹا ظلم کیسا؟

اگر میرے نماز پڑھنے سے ابلیس کو ذھنی اذیت ھوتی ہے تو کیا میں نماز ترک کر دوں؟

میں بابا جی کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رھا تھا۔

میں نے کہا بابا جی آپ تو ہمیشہ انسانوں سے محبت کا، معافی کا درس دیتے ہیں پھر آج اتنے سخت کیسے ھوگئے؟

بابا بولا بیٹا جو شخص قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے اتنا نہیں سیکھ سکا کہ حسد اور منافقت نہیں کرنی تو میں نمانا اس کو کیا سمجھا سکتا ھوں۔ میری بابوں والی پھکی تو چھوٹی موٹی بیماریوں کے لئے ھیں۔ یہ حسد اور منافقت روحانی کینسر ھیں اور کینسر بھی چوتھی اسٹیج کا۔ اب خود سوچ چوتھی اسٹیج کے کینسر کا علاج تو شوکت خانم ہسپتال میں بھی ممکن نہیں ہے۔

میں نے پوچھا بابا جی کیا واقعی یہ بیماریاں ناقابل علاج ھیں؟

بابا بولا بیٹا عبداللہ بن ابئی یاد ہے جو مدینہ منورہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا مخالف تھا۔ دنیا آپ سرکار کی نبوت آپ کے مرتبے اور آپ کے حسن اخلاق کے گن گا رھی تھی اور وہ حاسد منافق عبداللہ بن ابئی انگاروں پر لوٹ رھا تھا۔ اور عبداللہ بن ابئی حسد کی آگ میں جلتا ھوا منافق ھی مرا تھا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بھی حسد اور منافقت موجود رھتی ہے تو تم اور میں تو آقا کے ادنی غلام ھیں۔

پھر آقا پر درور و سلام کے بعد بولا بیٹا حاسد کی مثال بیل گاڑی کے نیچے لٹکتی لالٹین کے ساتھ بھاگتے اس کتے کے پلے کی سی ہے جو بیل گاڑی کے نیچے بھاگ رھا ھوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بیل گاڑی اس کے زور اس کی طاقت سے چل رھی ہے۔ پھر وہ کتے کا پلا بریکیں لگا کر بیل گاڑی کو رکنے کی کوشش بھی کرتا ہے مگر گاڑی نہیں رکتی۔ حاسد بھی حالات کو اپنے ذھن اور اپنی مرضی سے چلانے کا خواہاں ھوتا ہے مگر وہ اللہ کو بھول جاتا ہے جو غالب حکمت والا ہے۔ اور ھر چیز پر قادر ہے۔ بیٹا یاد رکھنا کوئی بندہ کسی کا رزق نہیں روک سکتا۔ کیونکہ رزق اور ترقی منجانب اللہ ہے۔

بابا کھڑا ہوا اور پارک سے نکل گیا اور میں تخیل کی آنکھ سے بیل گاڑی کے نیچے لٹکتی لالٹین کے ساتھ بھاگتے ھوئے کتے کو دیکھ رھا تھا جو بلا وجہ زور لگا رھا تھا۔ اور سوچ رھا تھا کہ یہ بیل گاڑی اس کی طاقت سے چل رھی ہے

اللہ مجہے حسد اور منافقت جیسی موذی بیماریوں سے محفوظ رکھے۔

اللہ ھمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).