شبنم ڈکیتی کیس، فاروق بندیال اور پی ٹی آئی


بدنام زمانہ شبنم گینگ ریپ کیس کے مرکزی ملزم فاروق بندیال کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اور بنی گالہ میں عمران خان کے ساتھ ان کی ملاقات کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد 40 سال پرانا وہ مقدمہ ایک بار پھر زیر بحث آ گیا جو 1978ء میں شہ سرخیوں میں آیا تھا۔ فاروق بندیال ایک ٹرانسپورٹر ہیں اور ان کا تعلق خوشاب سے ہے۔ ماضی میں سیاسی حوالے سے ان کا نام کبھی بھی سننے میں آیا لیکن اس کے باوجود ان کے مختلف سیاسی جماعتوں سے روابط رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف وہ پہلی جماعت ہے جہاں سے وہ سیاسی سفر کا آغاز کرنا چاہتے تھے اور شنید یہ ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کے لئے سمیرا ملک کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے لئے کوشاں تھے۔ لیکن اس تصویر کے وائرل ہونے کے بعد جو ردِ عمل سامنے آیا اس کے بعد ان کا یہ خواب ادھورا ہی رہ گیا اور پی ٹی آئی سے نہ صرف یہ کہ انہیں فوری طور پر نکالنا پڑا بلکہ پارٹی ترجمان کو اس حوالے سے معذرت بھی کرنا پڑی۔

فاروق بندیال کا نام 1978 ء میں اداکارہ شبنم گینگ ریپ کیس کے مرکزی مجرم کی حیثیت سے سامنے آیا تھا۔ یہ کیس اس زمانے میں شبنم ڈکیتی کیس کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ فاروق بندیال اور اس کے دوستوں نے 12 مئی 1978ء کو گلبرگ لاہور میں اداکارہ شبنم کے گھر واردات کی اور ان کے شوہر روبن گھوش کو رسیوں سے باندھ کر ان کے سامنے یہ نوجوان رات بھر شیطانی کھیل کھیلتے رہے، ملزمان بعد ازاں نقدی اور زیورات لے کر فرار ہو گئے۔تمام ملزمان اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے قریبی رشتہ داروں میں بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔ واردات کے پانچ روز بعد 17 مئی 1978 ء کو لاہور پولیس نے ان ملزمان کو گرفتار کر لیا۔

اس زمانے میں جنرل ضیاء کا مارشل لاء نافذ تھا اور فاروق بندیال کے ماموں ایس کے بندیال صوبائی سیکریٹری داخلہ کے عہدے پر فائز تھے۔ فاروق اور اس کے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کی گئی مگر عوامی احتجاج اور فلم انڈسٹری کی ہڑتال کے بعد حکومت ان کے خلاف مقدمہ چلانے پر مجبور ہو گئی۔ 24 اکتوبر 1979 ء کو فوجی عدالت نے فاروق بندیال اور اس کے پانچ ساتھیوں کو سزائے موت سنا دی تاہم بعد ازاں اداکارہ شبنم پر دباؤ ڈلوا کر ان کی سزا معاف کر دی گئی۔ فاروق بندیال کو کوٹ لکھپت جیل میں بی کلاس دی گئی تھی۔ جیل میں ‌موجود سیاسی قیدیوں کے مطابق وہ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ عام قیدیوں کو بڑے فخر سے بتاتا تھا کہ ہم نے اداکارہ شبنم کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ مشرق وسطیٰ کے ایک ملک کی سفارش پر ان کی سزا عمر قید میں بدل دی گئی اور شبنم انہیں معاف کرنے کے بعد اپنے اکلوتے بیٹے اور خاوند کے ساتھ بیرون ملک منتقل ہو گئیں۔ یہ تو وہ کہانی ہے جو بہت سے لوگوں کو معلوم ہے اور ان میں سے کچھ باتیں اس زمانے کے اخبارات میں شائع بھی ہوئیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سی کہانیاں اور واقعات ہیں جو آج کی نسل کو معلوم ہی نہیں‌۔

اس مقدمے کی روداد چالیس برس قبل کے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوتی تھی۔ وہ اداکار شبنم کے عروج کا زمانہ تھا۔ فوجی عدالت میں سماعت کے موقع پر صحافیوں اور وکلاء کی بڑی تعداد وہاں موجود ہوتی تھی۔ اداکارہ شبنم نے 25 نومبر 1978 ء کو فوجی عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا اور فاروق بندیال اور دیگر ملزمان کی شناخت کی۔ یہ سارا احوال روزنامہ امروز اور دیگر اخبارات میں تفصیل کے ساتھ شائع ہوا۔ ادکارہ شبنم کے وکیل نام ور ماہر قانون ایس ایم ظفر تھے جب کہ فاروق بندیال کی جانب سےبھی وکیل صفائی کے طور پر اس زمانے کے چوٹی کے وکیل عاشق حسین بٹالوی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ عاشق حسین بٹالوی کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ اسی زمانے میں نواب محمد احمد خان قتل کیس میں وکیل استغاثہ تھے۔ اس کیس کے مرکزی ملزم سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔

اداکارہ شبنم نے بیان ریکارڈ کرانے سے قبل بائیبل پر حلف دیا، عدالت نے ان سے پوچھا کہ وہ کس زبان میں بیان ریکارڈ کرائیں گی تو شبنم نے کہا میں قومی زبان اردو میں ہی بیان دوں گی، اخبارات کے مطابق شبنم نے بتایا کہ ملزمان میرے بیٹے رونی کے اغوا اور قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے اور میں بیٹے کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھی۔ ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب میرے مشہور مقدمے میں اس کیس کی مکمل تفصیل بیان کی ہے۔ ان کا کہنا ہے خصوصی فوجی عدالت میں‌اداکارہ شبنم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن شبنم نے بہت حوصلے کے ساتھ ملزمان کی نشاندہی کی اور جرح کا بھی سامنا کیا۔

ملزمان میں فاروق بندیال، وسیم یعقوب بٹ، طاہر تنویر بھنڈر جمیل احمد چٹھہ اور جمشید اکبر ساہی شامل تھے جو عدالت میں موجود تھے۔ جب شبنم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ان ملزمان کو پہچانتی ہیں تو انہوں نے کہا میں انہیں کیوں نہ پہچانوں گی جنہوں نے میرا سکون برباد کر دیا۔عدالت میں بیان دیتے ہوئے اداکارہ شبنم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ واردات کی تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ اداکارہ زمرد کے گھر پر بھی ایسی ہی واردات ہوئی تھی۔ زمرد کا گھر بھی شبنم کے گھر کے قریب ہی تھا ،اور اس میں ‌بھی یہی لوگ ملوث تھے، اداکارہ زمرد خوفزدہ ہو کر خاموش ہو گئی تھیں‌ لیکن شبنم نے مقدمے کی پیروی کی اور تمام دھمکیوں اور دباؤ کا بھی سامنا کیا۔

سینئر صحافی جمیل چشتی اس زمانے میں عباس اطہر کی ادارت میں شائع ہونے والے روزنامہ آزاد کے لئے کام کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں پہلا صحافی تھا جو واردات کے بعد شبنم کے گھر پہنچا۔ گھر میں سامان بکھرا پڑا تھا اور شبنم کی حالت غیر تھی۔ روبن گھوش کا ململ کا کرتا پھٹا ہوا تھا۔ شبنم اپنے بیٹے کو گود میں لئے رو رہی تھیں اور وہ بار بار بے ہوش ہو جاتی تھیں‌۔ شبنم کے بیڈ روم میں پرفیوم کی بے پناہ خوشبو تھی جو ملزمان شبنم پر انڈیلتے رہے تھے۔ جمیل چشتی کے بقول ان کی موجودگی میں ہی اداکار محمد علی بھی شبنم کے گھر پہنچے اور انہوں نے انتظامیہ اور پولیس سے رابطے کئے۔ جمیل چشتی کے بقول ایک ملزم جمشید اکبر ساہی کا تعلق پولیس سے تھا، اس لئے ملزمان پولیس کی نقل و حرکت سے بھی واقف تھے۔ اس زمانے میں پولیس صبح ساڑھے چار بجے تک گشت کیا کرتی تھی۔ ملزمان نے واردات کے بعد ساڑھے چار بجنے کا انتظار کیا اور پولیس گشت ختم ہونے کے بعد اطمینان سے فرار ہو گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد ازاں ملزمان کی گرفتاری بھی اسی جمشید ساہی کی وجہ سے عمل میں آئی۔ واردات کے دوران جو زیورات لوٹے گئے ان میں اداکارہ شبنم کا ایک قیمتی ہار بھی تھا۔ ساہی واردات کے تیسرے روز وہی ہار ایک طوائف کو دینے کے لئے بازار حسن گیا اور وہاں پہلے سے موجود مخبروں کی نشاندہی پر دھر لیا گیا۔

ملزمان کو فوجی عدالت سے سزائے موت سنا دی گئی۔ اس فیصلے کے بعد ملزمان کے لواحقین نے شبنم پر بھر پور دباؤ ڈالا۔ بندیال فیملی، ججز،چیف سیکریٹری اور دیگر اسٹیبلشمنٹ کا پریشر بہت زیادہ ہوا تو ضیاء الحق نے بھی گھٹنے ٹیک دئیے۔ اداکارہ شبنم کا گھرانہ اس وقت سخت ترین اذیت سے گزر رہا تھا، انہوں نے اپنے بیٹے کو امریکہ بھیج دیا۔ اب وہ صرف مجرموں کو سزا دلوانا چاہتی تھی۔ آخر شبنم کوانہیں معاف کر نا پڑا۔ شبنم کے وکیل ایس ایم ظفر نے جس پر صدر مملکت سے اپیل کی تھی۔ شبنم اور رابن گھوش سے معافی نامے پر دستخط کروائے گئے اور سزائے موت کو معمولی سزا دس سال قید میں بدل دیا گیا۔

فاروق بندیال کی پی ٹی آئی میں شمولیت کا سوال ان کو ایک ہی روز بعد پارٹی سے نکال دیئے جانے کے بعد اب بے معنی ہو گیا ہے۔ چالیس سال بعد دہرائی جانے والی اس کہانی سے لیکن ایک بات جو ایک بار پھر واضح‌ ہو کر سامنے آئی یہ ہے کہ مارشل لاء ہو یا جمہوریت، اس ملک کی اصل حکمران وہ اشرافیہ ہے جسے ہم ایسٹیبلشمنٹ کا نام دیتے ہیں۔ یہ اے کلاس اشرافیہ سزا یافتہ ہو کربھی ہمیشہ معزز کہلاتی ہےاور اسے جیل میں بی کلاس ملتی ہے۔ ان کے حصے کی سزا جھیلنے کے لئے ہم اور آپ موجود ہیں، ہم جو اس ملک کے سی کلاس شہری ہیں‌۔

بشکریہ: گردوپیش – ملتان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).