مختلف تقریبات اور قرآن


ہمارے معاشرے میں کئی قسم کی ایسی چیزیں رائج ہوچکی ہیں، جنھیں لوگ خوشی کے طور پر مناتے ہیں۔ جیسے پیدایش کی سال گرہ، شادی کی سال گرہ، بلکہ اب تو ختنے کے موقع پر بھی دعوت کا اہتمام ہوتا ہے۔ جو سال گرہ مناتے ہیں، وہ اپنی حیثیت کے مطابق اس میں خرچ کرتے ہیں۔ کچھ گھر کی سطح تک سال گرہ مناتے ہیں۔ کچھ اپنے قریبی اعزا و اقربا کو بھی اس موقع پر مدعو کرتے ہیں۔ کچھ اس سے بھی آگے بڑھ کر کسی ہوٹل میں بڑے پروگرام کے طور پر اسے مناتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں، جنھیں سال گرہ سے کوئی دل چسپی نہیں ہوتی۔ ان کی پیدایش کا دن آئے یا ان کی شادی کی سال گرہ کا دن، وہ اسے نہیں مناتے۔ یہ مواقع خوشی کے طور پر منائے جاتے ہیں، لیکن ان سب سے اہم خوشی یہ ہے، کہ کسی کی اولاد دیکھ ہی کر، یعنی ناظرہ قرآن مجید پڑھ لے، اور جس کی اولاد میں سے کوئی حافظ قرآن ہو، تو اس کی شان ہی نرالی ہے۔

پہلی بات یہ ہے، کہ ایک مسلمان میں قرآن مجید کی اتنی محبت ضرور ہوتی ہے، کہ وہ اپنی اولاد کو کم سے کم دیکھ کر تو ضرور قرآن مجید پڑھواتا ہے۔ چاہے وہ خود پڑھائے، یا مدرسے میں بھیجے، یا گھر میں کسی قاری صاحب کی خدمات حاصل کرے۔ ایک مسلمان سے بات محال ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دیکھ کر بھی قرآن مجید نہ پڑھوائے۔ اگر کہیں ایسا ہو تو والدین کو ضرور اس کی فکر کرنی چاہیے، کہ ان کی اولاد کو کم از کم دیکھ کر قرآن مجید پڑھنا آتا ہو۔ یہی وہ چیز ہے جو کسی انسان کی دنیا اور آخرت کی اصل کام یابی ہے۔ مزید یہ کہ جس طرح چھوٹے بچوں کو ان کے والدین اسکول بھیجتے ہوئے، نہلا دھلا کر اور تیار کرکے روانہ کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اس بات کی فکر کرنا چاہیے، کہ جب بچہ قرآن مجید پڑھے یا پڑھنے جائے تو وہ پاک صاف اور صاف ستھرا ہو۔

دوسری بات یہ ہے کہ عام طور سے ہمارے معاشرے میں، اگر کوئی بچہ کم سے کم دیکھ کر قرآن مجید پڑھ لیتا ہے تو اس کی ایسی خوشی نہیں منائی جاتی، جیسی اس کی سال گرہ یا کسی اور دنیاوی اعزاز کے موقع پر منائی جاتی ہے، حالاں کہ قرآن مجید پڑھنے کی خوشی ایسی خوشی ہے، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عملی طور پر منائی۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز تفسیر، تفسیر القرطبی میں یہ ذکر کیا ہے، کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارہ سال کے عرصے میں سورۃ البقرۃ پڑھی۔ جب انھوں نے اسے مکمل پڑھ لیا تو اونٹنی ذبح کی۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، ۱؍۷۵)

یہاں جو یہ ذکر کیا گیا ہے کہ بارہ سال کے عرصے میں سورۃ البقرۃ پڑھی۔ اس کا مطلب صرف پڑھنا نہیں ہے بلکہ اسے یاد کرنا، اس کے معانی میں غور و فکر کرنا وغیرہ بھی شامل ہے۔ کیوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسی جلیل القدر ہستی جو خود عربی تھے، ان سے یہ بات محال ہے کہ انھوں نے صرف دیکھ کر قرآن مجید پڑھنے میں اتنا وقت صرف کیا ہو۔

ختم قرآن پر یا کسی اور پڑھائی کے مکمل ہونے پر خوشی منانا کوئی ضروری نہیں ہے اور خوشی نہ منانے کی صورت میں کوئی گناہ بھی نہیں ہے۔ عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر خوشی منانا ہی ہے، تو اس خوشی کا درجہ، سال گرہ اور دیگر دنیاوی اعزازات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اگر دنیاوی اعزازات  کے موقع پر کسی تقریب کا انعقاد کرکے والدین اپنے بچے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں، تو اس سے کہیں زیادہ اولاد کا یہ حق ہے کہ اگر ان کا قرآن کریم مکمل ہو تو ان کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق کسی تقریب کا انعقاد کیا جائے۔

رسول اللہ ﷺ کا معروف ارشاد مبارک ہے، کہ تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ دِلوں کا احوال اللہ تعالیٰ بہتر جاننے والے ہیں، اور اللہ ہی کو معلوم ہے کہ کس کا مرتبہ اس کے نزدیک کتنا ہے لیکن بہر حال اس مبارك ارشاد سے یہ معلوم ہے، كہ ایسا انسان جو قرآن مجید سیکھ رہا ہے یا سکھا رہا ہے، تو وہ سب سے بہتر انسان ہے اور اس کے لیے دُنیا، قبر اور آخرت میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔

رضوان جیلانی
Latest posts by رضوان جیلانی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).