قومی لیٹروں کے کڑے احتساب کے بغیر الیکشن بے مقصد ہوں گے


مُلک میں اگلے متوقع عام انتخابات2018ء کی تاریخ کا اعلان ہوگیاہے۔ سیاسی گہما گہمی عروج پر پہنچ گئی ہے ۔ اَب ایسے میں دو قسم کی باتیں سامنے آرہی ہیں اول یہ کہ انتخابات مقررہ تاریخ کو ہی ہو ں گے اور دوسری بات یہ ہے کہ 25جولائی سے الیکشن ایک دوماہ آگے بڑھائے جائیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ اِس تاریخ کو لاکھوں پاکستانی شہری فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب گئے ہوئے ہوںگے تو وہیں ایک نقطہ یہ بھی سا منے آیا ہے کہ اِن دِنوں میں بلوچستان سمیت پورے مُلک میں مون سون کی بارشیں شروع ہو چکی ہوں گی، اچھی بات یہ ہے کہ اِن تمام نکات کے باوجود الیکشن کمیشن نے اپنا حتمی اعلان کر دیا ہے کہ وقت مقررہ سے الیکشن آگے بڑھانے کے لئے یہ عذر ناقابلِ قبول ہیں۔ انتخابات اپنے اعلان کردہ تاریخ پر ہی ہوں گے۔ چلیں، اچھا ہی ہوا کہ الیکشن آگے بڑھانے کی کوشش کرنے والوں کی ایک نہ چلی اور الیکشن کمیشن نے اپنے ایک اعلان سے سب پر پانی پھیر دیا ہے۔ جبکہ اصل بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں کہ آج جب نیب سمیت اعلیٰ عدالتوں میں قومی لیٹروں کا احتسابی عمل جاری ہے۔ اگرچہ، یہ ٹھیک ہے کہ ابھی تک اِس عمل سے مُلک اور قوم کے بہتر مفاد میں سِوائے سابق وزیراعظم نوازشریف ،جہانگیر ترین اور خواجہ آصف کی نااہلی کے کو ئی ایسا خاطر خواہ اورقابلِ تعریف نتیجہ نہیں نکل سکاہے مگر پھر بھی بڑی اُمیدوں اور دعووں کے ساتھ مُلک میں احتسابی عمل زورو شور سے جاری ہے۔ کہنے والوں کا خیال یہ بھی ہے کہ اَب اِس احتسابی عمل پربہت انگلیاں اُٹھنی شروع ہوگئی ہیں۔اور اِس پر بھی سوالیہ نشان لگ رہے ہیں؟ مگر چلنے دیں۔!
تاہم ایسے میں اِن قومی لیٹروں اور مُلک کی سلامتی اور استحکام کو خطرے سے دوچار کرنے اور مُلک دُشمن بیان دینے والوں، قومی دولت لوٹ کر سوئس بینک میں اربوں اور کھربوں رکھنے والوں اور قومی دہشت گردوں ، لیاری اور کراچی کو نوگوز ایرایاز بنانے والوں کی موجودگی میں غیرمتنازع ،غیرجانبدارانہ اور صاف وشفاف الیکشن کا دعویٰ بے مقصد اور محض سراب ثابت ہوگا یعنی کہ جب تک مُلک سے کرپٹ سیاستدانوں اور خواجہ آصف جیسے سالانہ صرف 6 ہزار روپے ٹیکس دینے والے قومی ٹیکس چوروں اور دیگر حوالوں سے کرپٹ عناصر کا کڑا احتساب اور اِن کا قلع قمع ہوئے بغیرالیکشن سمیت سب کچھ ہی بیکار ہے۔
آج کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ دِنوں 31 مئی 2018ء (جمعرات اور جمعہ) کی درمیانی شب کو وطنِ عزیز پاکستان میں دس سالہ لولا لنگڑا جمہوری دور کا تسلسل بخیروعافیت اپنی مدت پوری کرکے تکمیل کو پہنچ گیا ہے ،یعنی کہ یہ مُلکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک جمہوری حکومت نے دوسری جمہوریت کو اقتدار سونپا اور دوسری جمہوری حکومت بھی اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ختم ہوگئی ہے۔
 
اِس پس منظر میں اَب اگلے پانچ سالہ جمہوری دور میں داخلے کے لئے نگران وزیراعظم جسٹس (ر) نا صر الملک کی سربراہی میں عبوری حکومت تشکیل کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ یکم جون کو جسٹس (ر) ناصر الملک نے بطور نگران وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف بھی اُٹھا لیا ہے ایسے میں ایک بڑامسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ ابھی تک چاروں صوبوں میں نگراں وزرائے اعلیٰ کے چناؤ کا مسئلہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے جو موجودہ صورتِ حال میں بروقت الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے ایک بڑاسوالیہ نشان ہے؟ خیر اُمید ہے کہ آئندہ چند دِنوں میں وفاق سمیت صوبوں میں بھی عبوری حکومتیں تشکیل پا جائیں گیں اور اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ متحرک ہو جا ئیں گی اور مُلک میں اپنے حصے کا کام صاف و شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کا بخیرو خوبی انعقاد کرنے کے بعد اقتدار اگلی نو منتخب جمہوری حکومت کو سونپ کرسبکدوش ہو جائے گی۔
آج جو لوگ 2008 تا 2013ء پانچ سالہ پی پی پی اور 2013 تا 2018ء پانچ سالہ پی ایم ایل (ن) کے جمہوری مجموعی طورپر دس سالہ ادوار کو لولا لنگڑاکہہ رہے ہیں اِنہیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے کیو ںکہ کہیں بھی اور کوئی بھی جمہوراور جمہوریت ادوار کبھی بھی لولا لنگڑا نہیں ہوتا۔ یہ تو بس ہماری بدقسمتی ہے کہ جمہور اور جمہوریت کے نام پر جو لوگ اقتدار کی مسندِ عالی پر قابض ہوتے ہیں دراصل یہی جمہوریت کے لئے اہل نہیں ہوتے ہیں، یہی لولے لنگڑے اور اخلاقی اور سیاسی آنکھ سے کانے ہو تے ہیں، اِن کی ہی ذات کرپشن جیسے عیبوں سے بھری ہوتی ہے جن میں مذہبی اور اخلاقی اعتبار سے سو چھید ہوتے ہیں، درحقیقت یہ اِس قابل ہی نہیں ہوتے کہ یہ جمہور اور جمہوریت کے فلسفے کو سمجھیں،اور جمہوریت کے حقیقی ثمرات عوام الناس تک پہنچائیں۔ اِن کا کام تو انتخابات میں کروڑوں اور اربوں کی انویسٹمنٹ/ سرمایہ کاری کرکے بس اقتدار میں آنا ہوتا ہے جس میں یہ اپنے کالے دھن کی بدولت کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اِس میں ارضِ پاک میںبسنے والے میرے معصوم ہم وطنوں کا صرف اتنا سا قصور ہے کہ اِنہیں ہر الیکشن میں یہی جمہور سے عاری اور جمہوری ثمرات سے خالی سیاسی لنگڑے اور کانے جمہوریت کے نام پر ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے ہانکتے ہیں جس کے بعد ادارے ووٹرز کے سروں کی گنتی کرکے اخلاق اور سماجی خدمات کے جذبوں سے عاری اپنی ذات میں سوسو چھید رکھنے والوں لولے لنگڑوں اور کانوں کو اقتدار کی کنجی پانچ سال کے لئے سونپ دیتے ہیں۔ سوچیں، اَب جن لنگڑوں اور عقل کے اندھوں کو جمہوریت کی سمجھ ہی نہ ہو بھلا وہ عوام الناس تک جمہور یا جمہوری ثمرات کیا پہنچائیں گے؟ جن کا کام اقتدار میں آنے کے بعد یہ ہوتا ہے کہ الیکشن میں جن سروں کو گن کر حکمرانی ملی ہے سب سے پہلے اِن ہی سروں کا مہنگائی، بھوک و افلاس، بے جا ٹیکسوں، توانائی بحرانوں سے حقہ پانی بند کیا جا ئے اور مسائل کی بھٹی کا منہ کھول کر اِن ہی سروں کو تن سے جدا کیا جائے اور بچ جائیں اِن کے بنیادی حقوق پر اپنا قبضہ قائم رکھا جائے تاکہ کوئی سر اُٹھا کر اور سینہ چوڑا کرکے سا منے نہ کھڑا ہوسکے۔ اَب ایسے میں جب اِن کے سُدھار کے لئے طالع آزما/ اِبن الوقت/ قابوچی مدِمقابل آتے ہیں تو یہ جمہوریت کے درس اور فلسفے سے عاری سارے بیکار لولے لنگڑے اور کانے اپنی مظلومیت کا رونا روتے پیٹتے آہ و بکا کرتے سڑکوں پر نکل کراور دردرجا کر چیختے پھرتے ہیں کہ اِن کے اچھے بھلے جمہوری نظام کی نایدہ قوتوں اور خلائی مخلوق نے ٹانگیں توڑ کر اِسے لولا لنگڑا بنا کر بے کار کر دیا ہے۔
بیشک، ارضِ مقدس کی سترسالہ اِس حقیقت سے بھی اِنکارنہیں کہ سرزمینِ پاکستان میں ایسا تب ہی ہوا ہے جب اِن ہی جمہور اورجمہوریت کے پنڈتوں اور جمہوری پچاریوں نے قومی خزانے کو اپنے آباواجداد کی جاگیر سمجھ کر اِسے اپنے اللے تللے کے لئے بے دریغ استعمال کیا ہے اور میگا پروجیکٹس کی آڑ میں اپنے کمیشن اور پرسنٹیج سے قومی خزا نے کا ستیاناس کیا ہے تو پھر اِن نااہل اور آف شور کمپنیوں اور اقامے اور اربوں اور کھربوں قومی دولت لوٹ کھانے والوں اور قومی دولت کو سوئس بینکوں میں اپنے اور اپنے خاندان کے افراد کے ناموں سے کھاتے کھلوا کر منتقل کروانے والوں کو نکیل دینے کے خاطرہی تو نادیدہ قوتوں اور خلائی مخلوق کو سامنے آنا پڑا ہے۔ پھر اِس پر اِن جمہوری پنڈتوں کو اپنے گریبانوں میں پہلے جھانکنا چاہئے کہ اِن کے کرتوت ایسے تھے کہ اِنہیں خلائی مخلوق نے آن جکڑا۔ تو پھر یہ کسی سے متعلق کچھ بولیں۔
(ادارہ ہم سب کا لکھاری کے خیالات سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔) 

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).