کیا اب محبت کی شاعری ہو سکتی ہے؟


ایک نظم پڑھتے پڑھتے یہ خیال ایک سوال بن کر اٹھا۔ اور نظم پڑھتے ہوئے اس شدت سے اٹھا کہ میرے دل و دماغ کو جیسے لرزا گیا۔ جیسے کوندا سالپک گیا۔ پھر شدید احساسِ زیاں۔ جیسے کوئی بے حد قیمتی چیز، جس سے شدید جذباتی لگائو رہا ہو، دیکھتے دیکھتے کوئی ہاتھوں سے لے جارہا ہے۔

یہ خیال جس نظم سے ابھرا ہے، اس کا نام ہے جہاں زاد۔ اور یہ نظم عشرت آفرین نے لکھی ہے۔ یہ نظم میرے لیے نئی تھی نہ اس کی شاعرہ۔ صرف یہ خیال نیا تھا۔ اس سے پہلے میں نے یہ نظم پڑھ رکھی ہے، دل ہی دل میں دُہرائی، پھر شاعرہ کی زبانی جب بھی سُنی، بے اختیار داد دینے کو جی چاہا۔ یہ نظم اتفاقی طور پر پڑھ ڈالی اور تقریب اس کی یہ ہوئی کہ عشرت آفرین کی نئی کتاب مجھے مل گئی۔ ’زرد پتّوں کا بن‘ نامی اس کتاب کے اوپر کلّیات درج ہے اور اس میں شاعرہ کا اب تک کا کُل کلام شامل ہے، یعنی دو شائع شدہ مجموعے اور اس کے بعد تیسرا مجموعہ جو کتابی شکل میں سامنے نہیں آیا۔

کتاب مل گئی تو میں نے اس کی ورق گردانی شروع کر دی، تو بہت سی نظمیں، غزلیں ایک ایک کرکے یاد آنے لگیں۔ اس میں تعجّب کی کوئی بات نہیں، اس لیے کہ عشرت آفرین نہ صرف میری پسندیدہ شاعرات میں سے ایک ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ عصر حاضر کی ان اہم تر شعری آوازوں میں سے ایک جو شاعری کے ایک پورے دور کی آئینہ دار رہی ہیں، اس دور سے اثر پذیر ہونے والی اور اس پر اثر قائم کرنے والی بھی، جس کے شعری مزاج سے اس پورے دور کے مزاج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

عشرت آفریں

صفحے پلٹتے ہوئے میں دوسرے مجموعے کے مشمولات کی طرف آیا__ وہ کتاب جس کا نام ہے دھوپ اپنے حصّے کی اور جو میری دانست میں عشرت آفرین کے شعری سفر کا نقطۂ عروج ہے۔ اس میں دو نظمیں خاص طور پر نمایاں ہیں__ یہ بستی میری بستی ہے اور جہاں زاد۔ یہ بستی والی نظم مجھے میرے حافظے میں چمکنے لگی، کراچی کی ایک مضافاتی بستی، مٹتے رسم و رواج اور تنّوع کی فردوس گم گشتہ بن کر سامنے آگئی، لیکن جہاں زاد کو میں شروع سے لے کر آخر تک دوبارہ پڑھتا چلا گیا۔ نہیں، یہ نظم میرے لیے نئی تو نہیں تھی مگر یہ آج مجھ سے کوئی نئی بات کیا کہہ رہی ہے؟ نظم کا متن تو نہیں بدلا، اس کے قاری کا ذہن بدل کر رہ گیا۔ شاید یہ بھی اس نظم کے معنی کا حصہ ہے! وہ معنی جو اس نظم میں موجود تھے، میں ہی ان کو دیکھنے کے لیے تیار نہ تھا۔

یہ نظم پہلے بھی اچھی لگی تھی کہ بڑی ہمّت اور اولوالعزم انداز کے ساتھ راشد کی اس نظم سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے جو اپنی جگہ خود جدید اردو شاعری کے اہم ترین کارناموں میں سے ایک ہے۔ پھر جہاں زاد جیسے تصویر کا فریم توڑ کر باہر آنکلتی ہے اور اپنی داستان بیان کرنے لگتی ہے، جہاں زاد کی داستان جو ابھی تک سُنی نہیں گئی تھی۔ بس وہیںسے جیسے ہوا یک بیک پلٹ گئی۔

ن م راشد کے نظم ’’حسن کوزہ گر‘‘ اور پھر اس کے باقی حصّے نہ صرف اس غیرمعمولی ہُنر مند اور معنیاتی پیکر قراشی کے جادروگر کا فنّی و جمالیاتی منشور aesthetic credo ہے بلکہ بیسویں صدی کی انتہائی پیچیدہ اور معنی خیز نظموں میں سے ایک ہے۔ اس لیے اس نظم کو بنیاد بنا کر ایک نئی نظم کا آغاز کرنا بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی شاعر ’’مسجد قرطبہ‘‘ یا فیض کی ’’ملاقات‘‘ یا ، اخترالایمان کی ’’ایک لڑکا‘‘ کو اپنی نظم کا نقطۂ آغاز بنا ڈالے۔ پھر یہ نظم اپنا استعاراتی تانا بانا اور لفظیات راشد کی اس خزانوں سے بھری نظم سے حاصل ہی نہیں کرتی بلکہ اس نظم کے ساتھ مکالمے کی فضا قائم کرتی ہے جہاں بات کے جواب میں بات سامنے آتی ہے۔ راشد کی نظم میں حسن کوزہ گر نے جہاں زاد کے سامنے اظہار درد کیا تھا۔ اپنی زندگی کے سارے دکھ اور اپنے فن کی پرتیں کھول کر رکھ دی تھیں۔ اب جہاں زاد کو زبان مل گئی ہے، وہ اپنے عاشق کی درد انگیز خود کلامی سننے پر مامور موم کی گڑیا نہیں بلکہ اس کے درد کے حوالے سے اپنا رنج و غم، اپنی آزمائش بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور وہ بھی اس کمال ہُنر مندی کے ساتھ کہ حسن کوزہ گر کے اسلوب میں اپنی آواز شامل کرلیتی ہے۔ وہ اپنی روداد غم سناتی ہے جس کا اندازہ حسن کوزہ گر کو نہیں ہے:

’حسن

وقت مالک بھی ہے دیوتا بھی

محافظ بھی ہے اور خواجہ سرا بھی

یہ دیکھا ہے میں نے

کہ جب بھی دریچوں میں تازہ شگوفہ کھلا ہے

ہوا سے وہ ہنس کر ذرا سا گلے بھی ملا ہے

تو خواجہ سرا کی نظر سے کہاں بچ سکا ہے

مگر دیکھ مجھ کو

کہ میں نے یہاں ٹھیک سو سال تک

پھول کاڑھے ہیں خوابوں کے بستر پہ۔۔۔ لیکن

ابھی تک کوئی ان پر سویا نہیں

پھول تازہ، شگفتہ اور آزردہ ہیں

میں نے نو سال صورت گری کی ہے تیرے ہر ایک لمس کی

رات بھر میں نے آنکھیں بھگوئی ہیں کوزوں میں اور صبح دم

حلق کو تر کیا آنسوئوں سے بہت۔۔۔‘‘

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3