نواز شریف کی آزمائش ختم ہوئی، اب عمران خان کا امتحان ہے


دھرنوں سے ڈری ہوئی، آمریتوں کی ڈسی ہوئی ، میڈیا کے انقلابی اینکروں میں پھنسی ہوئی اور انجانے خدشوں میں پلی ہوئی جمہوریت کا ایک اور دور مکمل ہو گیا۔ اس ملک کی تاریخ میں یہ ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ اس بات پر سارا پاکستان مبارکباد کا مستحق ہے۔ امید یہ رکھنی چاہیے کہ یہ سلسلہ اب چلا ہے تو رکے گا نہیں۔ کوئی بھاری پتھر اب جمہوریت کی راہ میں حائل نہیں ہو گا۔ ان پانچ برسوں میں جہاں خدشات کی بات ہوتی رہی وہاں جمہوریت بھی ابھی لڑکپن سے نہیں نکلی۔ ابھی بھی بہت سے معاملات ہیں جن کا ذمہ آمریتوں پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ یاد رکھیے ،جمہوریت خود رو بوٹی نہیں ہے یہ ایک دانستہ فیصلہ ہے۔ اس شجر کی پرواخت نہایت ذمہ داری مانگتی ہے۔ اس کا ثمر دہائیوں کی ریاضت کے بعد مقدر ہوتا ہے۔ اس کو خون سے سینچنا پڑتا ہے۔ دل سے دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔ اس کی حفاظت جان سے بڑھ کر کرنا پڑتی ہے۔ جن معاشروں میں یہ پودا سایہ دار ہو گیا ہے انکی تاریخ نکال لیں۔ قباحتیں ، کدورتیں، عداوتیں اور نفرتیں سب ہی کی تاریخ کا حصہ رہی ہیں۔ لیکن اگر اس نظام کو تسلسل نصیب ہو جائے تو نسلیں سنور جاتی ہیں۔ قوموں کے مقدر بن جاتے ہیں۔ تقدیریں بدل جاتی ہیں۔

ہر سیاسی جماعت جمہوریت کا راگ الاپتی ہے اس کے نام کی مالا جپتی ہے مگر جب اسکے وضع کردہ قوانین راہ میں پڑتے ہیں تو یہی سیاسی جماعتیں نظر پھیر لیتی ہیں۔ کیا یہ المیہ کم نہیں ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں جن ممبران کی حاضری اسمبلی میں سب سے کم رہی ان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین شامل ہیں۔ میاں نواز شریف اور عمران خان صرف اس وقت اسمبلی میں تشریف لائے جب ان کو جمہوریت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اسمبلی میں ارکان کی حاضری کے مسائل بہت المناک سچ ہے۔ جس ووٹر سے ووٹ لیتے ہیں جب اس کی زندگی بہتر کرنے کی بات ہوتی ہے تو ایوان خالی پڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں کبھی کورم پورا نہیں ہوتا۔ کبھی حاضری مکمل نہیں ہوتی۔ وزراء وقفہ سوالات سے اجتناب کرتے رہے مگر جمہوریت کی مالا جپنے کا فریضہ نہیں بھولتے۔ قانون سازی کی طرف توجہ کم سے کم ہوتی رہی مگر جمہوریت کا نعرہ وقفے وقفے سے بلند ہوتا رہا۔ یہ وہ چند کنائے ہیں جن میں رمز کی باتیں چھپی ہیں۔ دوسرے جمہوری دور کی تکمیل کی مبارک سلامت میں یاد رکھئے گا اگلے جمہوری دور میں جمہوریت صرف نعرہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس کو طرزعمل بننا چاہیے۔

نگران حکومتوں کے قیام کے ساتھ ہی ملک بھر میں دو سوال پوری شدو مد سے گردش کرنے لگے ہیں پہلا سوال تو ہر زبان پر یہ ہے کہ کیا الیکشن ہو پائیں گے؟ لوگ ڈرے ڈرے، سہمے سہمے۔ بند کمروں میں ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں پوچھ رہے ہیں کیا نگران حکومتیں بس الیکشن کی مدت تک آئی ہیں یا ان سے مزید کوئی کام بھی لیا جا سکتا ہے؟ان سوالات پر آپ جتنا غور کرتے جائیں آپ اس بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ یہ واہمے میڈیا کے ایک خاص طبقے کی طرف سے پھیلائے جا رہے ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جو دھرنوں میں حکومت گرا چکا تھا ۔ جس نے ان پانچ سالوں میں ہر افواہ کو بریکنگ نیوز کا درجہ عطا فرمایا۔ یہ وہی لوگ ہیں جو گزشتہ پانچ سال میں ہر رات حکومت گرا کر سوتے تھے اور صبح حکومت کو پھر اپنے مقام پر پا کر سخت مایوسی کا شکار ہوتے تھے اور شام تک نئے حوصلے سے ایک دفعہ پھر حکومت گرانے کے درپے ہو جاتے تھے۔یہ سخن فروش سنسنی پھیلا کر اپنی ریٹنگ تو بڑھاتے مگر پورے ملک کے ناظرین کو ذہنی مریض بنا جاتے تھے۔ اب کرنا تو یہ چاہئےکہ گزشتہ پانچ برسوں کے تمام پروگرام نکالے جائیں اور ان تجزیہ کاروں اور اینکروں کے طلسماتی تجزیوں پر نفرین بھیجی جائے جو اس کار نجس میں شامل رہے۔ان کا میڈیا ٹرائل کیا جائے۔ جرمانہ یا سزا تو خیر کیا دی جائے گی لیکن ان سے عوام کے سامنے معافی کا تقاضا ضرور کیا جائے۔

میڈیا جمہوریت کے لئے لازم ہے مگر اگر چینل خود اس کے درپے ہو جائیں تو اس کا کوئی سدباب ضرور ہونا چاِہئے۔ لیکن جمہوریت کی طرح میڈیا بھی اپنے ایام طفولیت سے گزر رہا ہے۔ جمہوریت کی طرح اس کی بلوغت میں وقت درکار ہے۔دو ادوار گزرنے کے بعد اب جیسے جمہوریت ایک نئے دور میں داخل ہو گی اسی طرح توقع رکھنی چاہئے کہ میڈیا بھی بالغ ہو جائے گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انتخابات وقت پر ہی ہوں گے اور اگر نہ ہوئے تو ہم پھر غاروں کے دور میں چلے جائیں گے اور اب دور جہالت بیت گیا ہے۔ خوش گمان رہنا چاہئے۔ دوسرا سوال جو سارے پاکستان کی زبان پر ہے وہ یہ ہے کہ اگر الیکشن ہو گئے تو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں سے کون جیتے گا؟ حکومت کس کی بنے گی؟ اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا؟اس سوال کا جواب نسبتاََ آسان ہے اور اسکے شواہد بڑے واضح ہیں۔ چونکہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی نے سندھ میں کوئی کام نہیں کیا وہاں کی صورت حال میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ایم کیو ایم کی شکست و ریخت کے سبب ممکن ہے پیپلز پارٹی کراچی میں کچھ نشستیں لینے میں کامیاب ہو جائے۔

بلوچستان کی صورت حال بھی کسی تبدیلی کا پتہ نہیں دیتی۔ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہی چلتا رہے گا۔ یہاں پہلے بھی سرداروں کے مابین مقابلہ تھا اب بھی وہی صورت نظر آتی ہے۔پنجاب میں مقابلہ پی ٹی آئی اور ن لیگ کا ہے۔ پیپلز پارٹی کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ وہ اب پنجاب میں ختم ہو چکی ہے۔ اس کا ووٹر اب تحریک انصاف اور ن لیگ میں تقسیم ہو چکا ہے۔دو ہزار تیرہ میں پنجاب میں لہر عمران خان کی تھی اور عمران خان نے کل ملا کرمرکز میں انتیس اور ن لیگ نے مرکز میں ایک سو پچیس نشستیں حاصل کی تھیں۔ اب لہر نواز شریف کی ہے اور عمران خان اپنے زوال کے شباب پر ہیں۔ نتیجہ آپ خود نکال سکتے ہیں۔ کے پی میں گورننس کا فقدان رہا ۔ میٹرو اور کرپشن اب پی ٹی آئی کے گلے کا پھندا بن چکی ہے۔ کے پی کے لوگ دوسری دفعہ کسی کو موقع بھی نہیں دیتے۔یہاں ہزارہ بیلٹ میں ن لیگ اور باقی صوبے میں ایم ایم اے بہتر پرفارم کرے گی۔ ان انتخابات کا سب سے بڑا اپ سیٹ تحریک انصاف کی پوزیشن ہو گی۔ پنجاب کے عوام نواز شریف کے ہم زبان ہو چکے ہیں اور اسکا سب سے بڑا ثبوت لودھراں کا الیکشن تھا۔ اس الیکشن نے یہ بھی بتا دیا کہ اب الیکٹ ایبل والی سیاست ختم ہو چکی ہے کیونکہ لودھراں میں جہانگیر ترین سے بہتر کوئی ایلکٹ ایبل نہیں تھا۔

ذاتی حوالے سے دیکھا جائے تو میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں کہ جنہوں نے دوہزار تیرہ میں پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالا مگر اب پی ٹی آئی کی مضحکہ خیز سیاست سے تنگ آکر ن لیگ کو ووٹ ڈالنے کو تیار ہیں۔ میں ایک بھی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس نے گزشتہ انتخابات میں ن لیگ کو ووٹ ڈالا ہو اور اب عمران خان کو ووٹ دینا چاہتا ہو۔ اگرچہ جلسے کے حاضرین اور ووٹر میں فرق ہوتا ہے لیکن پھر بھی نواز شریف کے جلسوں میں لوگوں کی کثیر تعداد نظر آتی ہے اور عمران خان لوگوں کی عدم دلچسپی کے باعث جلسے کرنے سے ہی قاصر ہیں ۔ ان کو پریس کانفرنس میں الزامات لگا کر ہی گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پنجاب میں ترقی کے منصوبے بہت حد تک مکمل ہوئے اور گورننس دوسرے صوبوں کی نسبت بہتر رہی اس ترقی میں اگر نواز شریف کے بیانئے کے نمبر بھی ڈال دیں تو ن لیگ کا پلڑا بہت بھاری نظر آتا ہے۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر سندھ میں عمران خان کے ووٹ نہیں ہیں ، بلوچستان اپنی ڈگر پر چل رہا ہے، کے پی پی ٹی آئی کے عذاب سے بددل ہے اور پنجاب نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے تو ایک بہت بڑی ہزیمت عمران خان کی منتظر ہے۔ دوسری جانب ن لیگ کی نشستوں کی تعداد اتنی نظر آتی ہے کہ وہ باآسانی اپنی حکومت بنا سکیں گے۔ لیکن اس فیصلے کے اصل منصف اس ملک کے عوام ہیں دیکھئے فتح کا قرعہ کس کے نام نکلتا ہے؟

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar