عمران خان وزیر اعظم بننے کے بعد ناکام کیوں ہوں گے؟


وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہو چکی ہیں۔ ملک کے نگراں وزیر اعظم نے تو اپنا عہدہ سنبھال لیا ہے اور صوبائی وزرائے اعلیٰ اپنی اپنی شیروانی پہننے کی تیاریوں میں ہیں اور اسی طرح نگران وفاقی اور صوبائی وزراء بھی اپنی ڈینٹنگ پینٹنگ کروا کے رنگ روپ سنوارتے ہوتے اپنے گھوڑے دوڑا رہے ہوں گے کہ بس وہ کسی طرح اس نگران حکومت کا حصہ بن جائیں۔ چلو پانچ سال کے لیے نہ سہی کچھ مہینے کے لیے ہی جھنڈے والی گاڑی کی طاقت کا مزا لے سکیں۔ بلوچستان حکومت پر تو سب کی پہلی ہی نگاہ تھی کہ اسپیکر سینیٹ کی طرح وزیر اعظم بھی بلوچستان سے آئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی پریس کانفرس اور میاں محمد نواز شریف نے اس شک کا اظہار کیا ہے کہ بعض لوگ آنے والے انتخابات کا التوا چاہتے ہیں عموماً یہ اشارہ پاکستان تحریک انصاف اور بلوچستان کے نئے کھلاڑیوں کی طرف ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جیسے جیسے وقت قریب آتا جائے گا انتخابات کے التوا کے لیے بہت سے سیاسی اور مذہبی کھلاڑی اس ٹیم میں شامل ہو کر ٹرین میں سوار ہو جائیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے تو یہ خواب دیکھا تھا کہ آنے والے انتخابات میں سندھ کارڈ تو ان کی جیب میں ہے ہی مگر وفاقی حکومت بنانے کے لیے بھی وہ اہم کردار ادا کریں گے مگر پاکستان پیپلز پارٹی کی حالیہ پریس کانفرس جس میں فرحت اللہ بابر اور چوہدری اعتزاز احسن نے اتنخابات میں کسی بھی التوا کو رد کرتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو بھی خلائی مخلوق اور خدائی خدمتگاروں پر یقیں نہیں ہے کہ ایسا نہ ہو کہ پیپلز پارٹی سندھ کارڈ کا بیلنس بھی ختم ہو جائے اور ساری دعائیں اور وظیفے عمران خان کے لیے موثر ثابت ہو جائیں۔

پاکستان تحریک انصاف کو ہمیشہ کی طرح نا تجربہ کاری اور جلد بازی اور یو ٹرن لینے کہ وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب حکومت میں نگران سیٹ اپ کے لیے بھی پاکستان تحریک انصاف کشمکش کی صورتحال سے دوچار ہے۔ لگتا ہے کہ خان صاحب کے مشیر اور ترجمان اپنے اپنے داؤ پیچ لگانے میں مصروف ہیں اور ترجمان اور مشیر اتنے ہو چکے ہیں کہ خان صاحب کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کس کی بات ماننی چاہیئے۔ پاکستان تحریک انصاف اپنی انتخابی قوت بڑھانے کے لیے ہر آنے والے جیتے اور ہارے ہوئے گھوڑوں کو دونوں ہاتھوں سے لیے جا رہی ہے چاہے وہ عامر لیاقت حسین ہو یا پھر فاروق بندیال جیسی شخصیت ہو۔ پاکستان تحریک انصاف نیا پاکستان بنانے کے لیے تمام تر سیاسی پارٹیوں سے وہ تمام وہ مستری لے چکی ہے جو پرانے پاکستان کے سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں کا حصہ بنے رہے۔ جنہوں کرپشن بھی کی اور قومی خزانے کو بھی لوٹا۔ مگر کوئی بات نہیں، توبہ کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہیں شاید یہ لوگ نیا پاکستان بنانے میں خان صاحب کے مدد گار ثابت ہو سکیں۔

تمام تر اختلافات کے باوجود لوگ عمران کے حق میں ہیں کہ وہ ایک دفعہ ملک کے وزیر اعظم بن جائیں تاکہ ان کو بھی موقع مل سکے ملک کی تقدیر کو سنوارنے کا۔ پاکستانی قوم ہمیشہ سے ہی نت نئے تجربات کی خواہشمند رہی ہے اور اب بھی یہ لگ رہا ہے کہ آنے والے انتخابات میں زمین و آسمان ایک ہو کر خان صاحب کو وزیر اعظم بنائے گی۔ اب یہ تو واضع ہے کہ عمران خان وزیر اعظم والی شیروانی کو تیار کروا چکے ہیں مگر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے والے سیاسی کھلاڑیوں کی فوج ظفر موج بھی عمران خان کے لیے وبال جان بن جائے گی کہ وہ کس کس کو وزارت دیں اور کس کو ناراض کریں اور اس کے ساتھ نا تجربہ کاری اور ڈھیروں مشیر و ترجمان اور نعیم الحق اور فواد چوہدری جیسے بے شمار نام پاکستان تحریک انصاف میں موجود ہیں جو پورس کے ہاتھیوں کی طرح اپنی ہی حکومت کے خلاف کام کرتے ہوئے لڑتے مرتے ہوئے نظر آئیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف جن دھرنوں کو جمہوریت کا حسن سمجھتی رہی ہے خان صاحب کے وزیر اعظم بننے کے بعد انہی دھرنوں اور لانگ مارچ کا سامنا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو کرنا پڑے گا اور پاکستان تحریک انصاف ان دھرنوں کو کچلنے کے لیے وہی ہتھکنڈے استعمال کرنے پر مجبور ہوگی جو ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ان دھرنوں اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست میں اتنے الجھ جائیں گے کہ اپنی حکومت کا سو دن والا پلان بھی بھول جائیں گے دفاعی اور خارجہ پالیسی کے معاملات تو دور کی بات ہے۔ خان صاحب پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ ماضی کی طرح اپنے دور حکومت میں کسی بھی قوت کی شراکت داری پسند نہیں کریں گے تاکہ وہ خود مختار حکومت قائم کر سکیں مگر سب سے بڑا چیلینچ تو یہ ہوگا کہ خان صاحب اپنی مرضی اور منشا کی حکومت قائم کر کے اسے چلا سکیں۔

کئی لوگوں کو تو یہ پختہ یقین ہے کہ ماضی کے وہ سیاسی کھلاڑی جو پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ق اور دیگر جماعتوں کا حصہ تھے اور جو اب پاکستان تحریک انصاف کے ہٹلر سمجھے جاتے ہیں وہ بھی خان صاحب کے وزیر اعظم کا تختہ الٹنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت صرف اور صرف عمران خان صاحب کی وجہ سے ہے اگر خان صاحب نیا پاکستان بنانے کے لیے ان تمام سیاسی پارٹیوں کے مفاد پرست جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور وڈیروں جسے لوٹوں کو چھوڑ کر ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو اپنے پارٹی میں شامل کرکے پارلیمانی سیاست کا حصہ بناتے تو شاہد پاکستان تحریک انصاف آنے والی کئی صدیوں تک قائم و دائم رہ بھی سکتی تھی۔ مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ تو نہیں ترا غم، تری جستجو بھی نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).