آنکھوں کی سوکھ چکی شبنم


گئے دنوں کی بات ہے کہ پاکستان میں ایک شبنم ہوا کرتی تھی، لاکھوں لوگوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کی مانند۔
بنگال کا جادو اس کی آنکھوں میں بھرا تھا۔ اردو بنگالی لب و لہجے میں ایک ٹھہراؤ کے ساتھ ادا کرتی تھی، جس میں اس کی آواز کی مدھر سی لرزش عجب سا جلترنگ بھر دیتی تھی۔
پاکستان فلم انڈسٹری کی ایک بلکل ہی مختلف اور اسٹائلش ہیروئن، جس کے ہر انداز میں جدید دور کی ماڈرن عورت نظر آتی تھی۔
اس کا لباس اور ساڑھی کا بنگالی اسٹائل اسے سب سے الگ اور نمایاں کردیتا تھا۔

وہ پاکستانی فلم کے عروج کا زمانہ تھا اور لوگ فلمی ستاروں کے پیچھے یوں دیوانے تھے جس طرح آج بھارتی اداکاروں کے پیچھے۔
شبنم مشرقی پاکستان سے کب لاہور آ بسی، یہ تو معلوم نہیں، بس لگتا تھا، جیسے وہ ہمیشہ سے مغربی پاکستان کے ماتھے پر ایک چھوٹی سی جھلملاتی بندیا کی مانند سجی ہوئی ہے۔
ان دنوں ہر اخبار فلمی صفحہ نکالتا تھا، جس میں فلمی ستاروں کی تصویریں اور ذاتی زندگی سے متعلق مواد اور اسکینڈلز بھرے ہوتے تھے۔
ان صفحات پر شبنم شروع سے ہی شادی شدہ اور اسکینڈلز سے پاک، ایک پڑھی لکھی باوقار عورت کی صورت میں نظر آئی، جس کی زندگی کا مرکز اس کا شوہر روبن گھوش اور گھر تھا۔

دبلا پتلا درمیانے قد والا موسیقار روبن گھوش جو بنگالی دھنوں سے مغربی پاکستانیوں کے دلوں کو دھڑکن دیتا تھا۔
جتنی زیادہ پرکشش شبنم تھی، روبن گھوش اتنا ہی کم پرکشش تھا۔ بلکہ بہت ہی سادہ سا۔ دوسری طرف شبنم وحید مراد جیسے چاکلیٹی رومینٹک ہیرو اور محمدعلی جیسے وجیہہ اور ندیم جیسے معصوم صورت ہیرو کے ساتھ اسکرین سجاتی تھی۔
یہ وہ ہیرو تھے جن کے خوابوں کا زہر اس دور کی کئی حسیناؤں کو لے ڈوبا۔

اکثر اس کی تصویریں روبن گھوش کے ساتھ چھپتی تھیں۔
تصویروں میں روبن گھوش عموماً دھوپ کا چشمہ لگائے ہوئے ہوتا تھا، اس لیے کبھی نظر نہ آیا کہ اس کی آنکھوں میں اُس شبنم کے لیے کتنی محبت ہے، جسے دیکھ کر کئی منچلے دل تھام لیتے ہیں! مگر شبنم کی فلموں کے لیے بنائی گئی اس کی دھنیں شبنم سے اس کی محبت کا احوال کہتی تھیں۔
پھر گزرتے وقت کے ساتھ ان تصویروں میں، دونوں کے بیچ ایک بچہ بھی نظر آنے لگا۔ منا سا۔ دھیرے دھیرے بڑا ہوتا ہوا۔ شاید رونی نام تھا اس کا!
اسکرین پر ہم شبنم کو سراپا رومانس دیکھتے تھے۔ مگر فیملی تصویروں میں اسے سراپا ممتا اور پتی ورتا دیکھتے تھے۔

لیکن اسکرین پر اس کا رومانس بھی کچھ ایسا ہوتا تھا کہ ہیرو سے ایک حد کا فاصلہ رکھتی تھی۔ خاص طور پر وحید مراد سے جس کے رومانس میں وارفتگی بھری ہوتی تھی۔
وحید مراد کو وہ چھونے بھی نہیں دیتی تھی اور وہ بیچارہ بھی حدِ ادب میں رہ کر شبنم کے لیے اسکرین پر برستی بارش میں گاتا تھا کہ اے ابرِ کرم، آج اتنا برس، اتنا برس، کہ وہ جا نہ سکیں۔
جواب میں شبنم ایک جھینپی جھینپی سی مسکراہٹ پر اسے ٹرخاتی ہوئی نظر آتی۔

بعد میں تو وہ صرف ندیم کے ساتھ ہی کام کرتی تھی شاید، جو اس کا ہم زمیں اور ہم وطن بھی تھا۔ گو کہ ندیم بنگالی نہیں تھا مگر بنگال میں جذب ہوچکا تھا۔ اس نے بنگالیوں سے نفرت نہیں بلکہ اتنی محبت کی تھی کہ اپنے محسن بنگالی فلمساز کی بیٹی سے شادی بھی کی اور وفا بھی کی۔
شبنم کا اصلی نام جھرنا تھا۔ اکثر ماتھے پر بندیا بھی سجاتی تھی۔ بس اسی سے پتہ چلتا تھا کہ شبنم شاید ہندو ہے اور روبن گھوش کرسچن!

مگر وہ زمانہ بھی تو عجب زمانہ تھا!
اسلام کے نام پر بن چکا پاکستان ابھی اتنا پرانا بھی نہ ہوا تھا، مگر پاکستان کے مسلمانوں نے ابھی بہشت کا شارٹ کٹ پکڑنے کی غلط فہمی میں مندر، مسجد اور گرجے ڈھانا شروع نہیں کیے تھے۔ نہ ہی غیرمسلم اقلیتوں پر زندگی کا دائرہ تنگ کرنا شروع کیا تھا۔
شبنم کے مداحوں نے بھی کبھی یہ سوچا ہی نہ تھا کہ وہ ہماری ہم مذہب نہیں ہے! بس وہ تو ہماری شبنم ہے۔

اگرچہ ریاست تب بھی بنگالیوں سے نفرت کا زہر گھول گھول کر پی رہی تھی مگر عام پاکستانی، گھوش فیملی ہی کیا، رونا لیلیٰ، دینا لیلیٰ، رحمان، شبانہ اور جانے کتنے بنگالی آرٹسٹوں کی محبت میں گرفتار تھے۔
شہناز بیگم تو بنگلہ دیش بننے کے بعد بھی پی ٹی وی پر دل کی گہرائیوں سے سوہنی دھرتی۔ اللہ رکھے۔ قدم قدم آباد تجھے۔ گایا کرتی تھی۔
اور شبنم بدستور باقی بچے کھچے پاکستان کی اسکرین پر جھلملا رہی تھی۔ اس کی فلم آئینہ سینما میں لگی تو برسوں نہ اتری۔

میں نے شبنم کو سامنے سے پہلی بار اس عمر میں دیکھا تھا جب فلم اسٹار کو دیکھ کر حیرت و بے یقینی سے منہ کھلا رہ جاتا ہے۔
کراچی میں وہ ہمارے گھر کے سامنے والی سڑک پر سین شوٹ کروا رہی تھی اور بالکونی کی ریلنگ پر میں تقریباً اوندھی لٹکی اس آسمانی ستارے کو دیکھ رہی تھی۔ لگتا تھا، یہ میری زندگی کا حسین ترین لمحہ ہے!

مگر دوسری بار جب دیکھا تو بہت سارا وقت پُل کے نیچے سے بہہ چکا تھا۔ میں شروع کے ڈرامے لکھ کر شہرت کا عروج دیکھ رہی تھی اور شبنم زوال کے گہرے ہوتے سائے میں کھڑی تھی۔ فلم انڈسٹری بھی زوال کے دلدل میں اتر چکی تھی۔

وہ لاہور میں روبینہ قریشی اور مصطفیٰ قریشی کے گھر کا ڈنر تھا جو انہوں نے میری مہمان داری میں رکھا تھا۔
میں اور شبنم ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ اس کی جادو بھری بنگالی آنکھوں میں رہ رہ کر نمی اتر رہی تھی۔ چپ تھی۔ ایسی چپ کہ جیسے چپ نے ڈس لیا ہو اسے!
تب یہ خبر گزرے بھی کافی سال بیت چکے تھے کہ اس کے گھر اور وجود پر ڈاکا لگا تھا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah