کالاباغ پر اتفاق رائے ہوتا دکھائی دے رہا ہے


کالاباغ ڈیم پر لڑنے جھگڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دو صوبے شدید مخالفت کر رہے ہیں تو نہیں بننا چاہیے۔ جب تک باہمی رضامندی نہ ہو تو ایسے منصوبے پر کام نہ کیا جائے جو نفاق کا باعث ہو۔ ایسے معاملات کو سرد خانے میں ڈال دینا چاہیے اور جب جذبات ٹھنڈے پڑیں اسی وقت دوبارہ منصوبہ نکال کر گرم کیا جائے۔ ہماری رائے میں کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے اگلے پانچ سال میں ہو جائے گا۔ یعنی 2018 یا پھر 2023 کی حکومت اس ڈیم پر کام شروع کر دے گی۔

ہم تکنیکی بحث میں تو نہیں الجھ سکتے کہ خود اس چیز کا پتہ نہیں ہے اور جنہیں پتہ ہے ان میں سے آدھے انجینئر بشمول نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک اس کی حمایت میں تھے اور تکنیکی طور پر اسے بہت محفوظ قرار دے رہے تھے جبکہ آدھے انجینئیر اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس لئے تکینکی رائے کی بجائے عوامی رائے کی بات کرتے ہیں۔

ایک اعتراض یہ ہے کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا حالانکہ شمس الملک اس بات کو جھٹلاتے ہیں۔ پہلے پختونخوا اور نوشہرہ کو دیکھ لیتے ہیں۔ افغانستان تیزی سے دریائے کابل پر ڈیم بنا رہا ہے۔ درجن بھر ڈیموں کو بھارتی فنڈنگ اور تکنیکی مدد مل رہی ہے۔ ورلڈ بینک کے پراجیکٹ بھی چل رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ چار پانچ برس بعد افغانستان کی طرف سے دریائے کابل سے بوند بوند پانی ہی ملے گا اور مقامی ٹریبیوٹریز پر ہی انحصار رہ جائے گا۔ یہ وہ دریا ہے جو وادی پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ کو سیراب کرتا ہے۔ اس کے بند ہونے کے بعد پختونخوا کا انحصار دریائے سندھ پر بڑھے گا اور اسے تربیلا سے زیادہ پانی چاہیے ہو گا۔ باقی صوبے اس پر کیوں آمادہ ہوں گے کہ اپنا حصہ کم کریں؟ ان کو حصہ دینے کے لئے انہیں کالاباغ سے ہی پانی دینا پڑے گا۔ اس صورت میں توقع ہے کہ خیبر پختونخوا تو دریائے کابل پر درجن بھر افغان ڈیم بننے کے بعد دریائے سندھ سے زیادہ پانی لینے کی خاطر مان جائے گا۔ جہاں تک ڈیم بھرنے کے لئے پانی کی بات ہے تو ہم دیکھتے ہی رہتے ہیں کہ جب برسات میں سیلاب آئے تو دریاؤں میں اتنا پانی ہوتا ہے کہ تمام ڈیم بھرنے کے علاوہ آدھا ملک بھی اس سے بھر جاتا ہے۔ اور اسی پانی کو باقی سارا سال استعمال کیا جاتا ہے۔

سپت سندھو پر بھارت مہربانی کر رہا ہے۔ راوی، بیاس اور ستلج پہلے ہی بھارت لے جا چکا ہے۔ جہلم، چناب اور ان کے بعد سندھ پر بھی بھارت مہربانی کرے گا۔ نتیجہ یہ کہ پاکستان کے تمام صوبوں میں پانی کی کمی ہو گی۔ پہلے ہی فی کس پانی کی شدید کمی ہوتی جا رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے فصلوں کو پانی نہیں ملے گا۔ اس کا مزید نتیجہ یہ ہے قابل کاشت رقبہ کم ہوتا جائے گا اور خوراک کی شدید کمی ہو گی۔ ہمارے کھیت کھلیان کم ہوں گے تو خوراک بھی کم اور مہنگی ہو گی اور بے روزگاری بھی پھیلے گی۔ ادھر بھی اضافی پانی کی خاطر تمام صوبے کالا باغ ڈیم بنانے پر اتفاق کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

ویسے ایک بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ماہرین میں سے کوئی اس پر روشنی ڈالے تو کیا خوب ہو۔ دریائے سندھ پر اگر گلگت بلتستان میں دیامیر بھاشا ڈیم بنا دیا جائے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا کہ زیریں علاقوں کو کم پانی ملے گا۔ دریائے سندھ پر اگر خیبر پختونخوا میں داسو کے مقام پر ڈیم بنا دیا جائے تو زیریں علاقے مطمئن رہتے ہیں۔ لیکن کالا باغ کے مقام پر ڈیم بناتے ہی دریائے سندھ کے زیریں علاقوں میں پانی کی شدید کمی ہو جاتی ہے۔ واپڈا سے پوچھنا پڑے گا کہ ”تم ڈیم بناؤ ہو یا کرامات کرو ہو“۔ کیا دیامیر بھاشا اور داسو ڈیم دریائے سندھ کا پانی نہیں روکیں گے؟

بہرحال جیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کیا تھا کہ اگر باقی صوبے راضی نہیں ہیں تو کالا باغ ڈیم نہیں بنانا چاہیے۔ دیامیر بھاشا اور داسو ڈیم بنا دیں جن پر صوبوں کو فی الحال کوئی اعتراض نہیں ہے۔ پانچ سال سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پانچ سال بعد پانی کم ہو گا تو خود بخود اتفاق رائے ہو جائے گا۔

پانی کے بحران سے بچنے کے دو طریقے ہیں۔ یا تو بہت سارے ڈیم بنا دیں۔ یا پھر آبادی کے سیلاب کے آگے بند باندھ دیں۔ ایک پر صوبے راضی نہیں ہیں دوسرے پر مولوی۔ ان میں سے ایک پر راضی ہونا پڑے گا۔ بلکہ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ دونوں پر ہی راضی ہونا پڑے گا۔ قدرت اور بھوک راضی کرا دے گی۔ بھوک کا جبر بہت سے نظریات بھلا دیتا ہے۔ پاکستان میں 2025 تک شدید آبی بحران کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ اس سے بہت پہلے ہی کالا باغ پر اتفاق رائے ہو جائے گا۔ اس لئے قدرت کا کام قدرت پر چھوڑ دیں اور آپس میں مت لڑیں۔ اس وقت تک دریائے سندھ پر دیامیر بھاشا اور داسو ڈیم بنائیں۔

ویسے یہ گمان سا بھی ہوتا ہے کہ فی الحال یہ موسمی بحث ہے۔ جیسے جنوبی پنجاب کے صوبے کا ایشو الیکشن کے وقت گرم ہوتا ہے اور الیکشن ہوتے ہی ختم ہو جاتا ہے، کالا باغ کی اچانک زور پکڑنے والی یہ بحث بھی الیکشن ہونے تک ہی ہے۔ الیکشن ختم ہوں گے تو یہ بحث بھی پانچ برس کے لئے ختم ہو جائے گی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar