بد معاش امید وار!


انتخابات کے دن آئے اور ملک کے کونے کونے سے ‘بدمعاش امیدوار’ نکل نکل کر برساتی مینڈکوں کی طرح سامنے آ نے لگے۔

ان میں سے کئی امیدوار، پیشہ ور سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن پر ہر قسم کی مالی، جسمانی اور اخلاقی کرپشن کا الزام ہے۔

سیاسی جماعتوں نے بھی ہمیشہ کی طرح ان میں سے کچھ کی سر پرستی جاری رکھی لیکن اسی دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا جو پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ کا ایک اہم موڑ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

فاروق بندیال نے پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی اور ان کی الماری میں موجود ڈھانچہ دھڑام سے ان کے سر پہ آ گرا۔

فارق بندیال کیس ہم سب کی یاد داشت میں ایک سلگتے ہوئے کوئلے کی طرح موجود تھا۔ شبنم جیسی باصلاحیت اداکارہ اس سانحے کے بعد جس طرح منظر سے غائب رہیں وہ بھی سب ہی نے دیکھا تھا۔

اب یہ کیسے ممکن تھا کہ بندیال دوبارہ سیاسی لانڈری سے ڈارئی کلین ہو کر اسمبلی پہنچ جائے؟ ہماری نسل کو یہ کیس ‘شبنم ڈکیتی’ کے نام سے یاد ہے۔

دو سال قبل زمین کے کسی تنازعے پہ میری ایک قریبی عزیزہ نے بڑے فخر اور دھمکی آمیز انداز میں دہرایا تھا کہ وہ صاحب جو شبنم ڈکیتی کیس کا مرکزی کردار تھے ان کے شوہر کے دوست ہیں۔ اس لیے انھیں کسی بھی دوٹکے کی عورت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ جملہ تب بھی ہمارے نظام کے منہ پہ طمانچہ تھا اور آج اس شخص کا سیاسی دھارے میں شامل ہونے کے لیے نہایت سکون سے تحریک انصاف کے چیئرمین کے ساتھ کھڑا ہونا بھی ایک گالی ہے۔ اسی پہ بس نہیں، لوگوں کے احتجاج پہ ان کا جوابی بیان بھی سامنے آیا کہ نوجوانی میں چھوٹی موٹی غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں۔

یہ غلطی نہیں تھی، جرم تھا ایک سنگین جرم،۔ آپ کے خاندان کے دباؤ کے آگے ہار کے شبنم نے آپ کو معافی دلا دی تھی۔ قانون چاہے فوجی ہو چاہے سول ایک ایسا جال ہے جس میں صرف چھوٹی مچھلی پھنستی ہے بڑی مچھلی اس جال کو توڑ کے نکل جاتی ہے۔ آپ بھی نکل گئے۔

جرم فاروق کا تھا، پریشان شبنم رہیں اور طعنہ ان تمام خواتین کو پڑتا رہا جو اس پدر سری سماج میں اپنی مرضی سے جینا چاہتی تھیں۔

ہماری سیاسی جماعتوں میں بھیڑیے موجود ہیں۔ قائدین سے لے کر ورکر تک سب پر مخلتف الزامات لگتے ہیں۔ انتخابات کا زمانہ آ گیا ہے اور پارٹی فنڈ دینے کے اہل افراد جن کے پیچھے برادری ووٹ ہے فٹا فٹ ٹکٹ لینے کے لیے پہنچیں گے۔

پارٹی ٹکٹ دینے والے بھی صرف یہ ہی دیکھیں گے کہ کون کتنا پیسہ اور ووٹ لا رہا ہے؟ امیدوار کا کردار، اس کی ذہنی استطاعت، وہ اسمبلی میں جا کر قانون سازی کے عمل میں شامل ہونے کا اہل ہے یا نہیں، وزارت کے منصب پہ پہنچ کے اس شعبے میں کیا کردار ادا کرے گا؟ ان سب کی پروا کون کرتا ہے؟ اور جو کرتا ہے اس کی پارٹی کے ممبر ایک تانگے کی سواریوں جتنے ہی ہوتے ہیں۔

شنید یہ ہی ہے کہ فاروق بندیال کی رکنیت منسوخ کر دی گئی ہے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو بہت اچھا ہوا ہے۔ میرے خیال میں تو تمام سیاسی جماعتوں کو رضاکارانہ طور پر اپنی اپنی جماعتوں سے ایسے ارکان کو خود ہی نکال دینا چاہیے اور اگر وہ بوجوہ ایسا نہ کر پائیں تو پارٹی ورکرز اور سپورٹرز کو ایسی کالی بھیڑوں کو اپنی اپنی سیاسی جماعت سے نکلوانے کی تحریک چلانی چاہیے۔

پاکستانی خواتین آبادی کا قریباً 52 فی صد حصہ ہیں۔ ان انتخابات میں اگر خواتین یہ تہیہ کر لیں کہ وہ کسی بھی ایسے فرد کو ووٹ نہیں دیں گی جس کے کردار پر داغ ہے تو میرا خیال ہے کہ انتخابی نتائج بہت فرق ہوں گے۔

مزید یہ کہ ایسے تمام کیس جن میں ملزمان ثبوت نہ ہونے کے باعث باعزت بری ہو گئے، جس جس کو یاد ہیں، منظرِ عام پہ لائیں تاکہ اگلی نسل چھوٹی موٹی غلطیاں کرنے سے ڈرے۔

ایسی ترقی، ایسی جمہوریت اور ایسا معاشرہ کس کام کا جس میں خواتین کے خلاف جرم کا مرتکب شخص سینہ تان کے پھرے اور اگر آپ ان جرائم کو چھوٹی موٹی غلطیاں سمجھتے ہیں تو پھر آ پ ہی کو مبارک ہو یہ دنیا۔ جلا دو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا تمہاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا!

پسِ نوشت: کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا نیا فارم، ‘بدمعاش امید واروں’ کے مفاد کے لیے بنایا گیا تھا اور اسے تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ شنید یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے اسے کا لعدم قرار دے دیا ہے۔عوام سے گزارش ہے کہ جیب کتروں سے ہوشیار رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).