ایف سی آر کا کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے


70 سال بعد آرٹیکل 1، 51، 59، 62، 106، 155 اور 246 میں آٹھ ترامیم کرکے فاٹا سے ایف سی آر کو ختم کر دیا گیا ہے مگر اب بھی فاٹا میں فاٹا اصطلاحات کے بعد بھی فضا اتنی خوشگوار دِکھائی نہیں دے رہی۔ فاٹا اصطلاحات پر لوگوں کو شک و شبہ ہے سو حکومت کو قابل اعتراض نکات جلد از جلد واضح کردینے چاہئیں۔

1867 میں ایف سی آر کو بنایا گیا جس کا اہم مقصد مقامی لوگوں کو دبانا اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا تھا۔ فرنٹیئر کرائم ریگولیشن کو پہلی بار پنجاب کے جدید علاقوں میں جن میں میانوالی، اٹک اور دیگر اضلاع شامل ہیں، یہاں 1872 میں پہلی بار نافذ کیا گیا۔ 1879 جیسے ہی خیبر ایجنسی ابھری تو ایف سی آر کو افغانستان کے سرحدی علاقوں تک پھیلا دیا گیا۔ اس کے بعد 1892 میں کرم ایجنسی اور 1897 میں وزیرستان میں اس کالے قانون کو نافذ کیا گیا۔ 1901 میں تمام قبائیلی علاقہ جات میں قبائیلوں کو دبانے کے لئے اور ان پر جبر وظلم کرنے کے لیے کالے قانون کو نافذ کیا گیا۔
چونکہ قبائیلوں نے انگریز سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لہذا انہوں نے ہرممکن کوشش کی کہ ان کی طاقت کو توڑا جائے اس لئے انگریز سامراج نے ایف سی آر کو یہ ٹاسک دیا۔ 1901 سے 1947 تک ایف سی آر کا دائرہ جموں کشمیر اور بلتستان میں بھی پھیلایا گیا۔

جیسے ہی پاکستان معرض وجود میں آیا تو فوراً پنجاب کے علاقہ جات کو ایف سی آر سے پاک کیا گیا اور آئین پاکستان کو وہاں پر نافذ کیا گیا مگر قبائلیوں کو اسی طرح اس کالے قانون کے دلدل میں پھنسائے رکھا گیا اور کسی نے قبائلی علاقہ جات کی طرف خاطر خواہ توجہ نہ دی۔

برطانوی سامراج نے 1870 سے ہی لوگوں کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے تمام ممکن ہتھکنڈے استعمالکیے اور شعوری بندشوں میں جکڑے رکھا۔
52 سال کے طویل عرصہ گزرنے کے بعد 1997ء میں فاٹا کے لوگوں کو ووٹ کا حق دیا گیا، اس طرح فاٹا کو پارلیمنٹ تک رسائی مل گئی۔ مگر اس کے بعد فاٹا کے ممبران کو قانون سازی میں رائے دینے کا حق نہیں دیا گیا۔

2011ء کو زرداری کی حکومت میں ”پولیٹکل ایکٹ 2002ء ” کو فاٹا تک توسیع کی منظوری دی گئی اس طرح فاٹا میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔
فاٹا کے لوگوں کے پاس دلیل، وکیل اور اپیل کا حق نہیں تھا 70 سال بعد خدا خدا کرکے فاٹا سے ایف سی آر کا خاتمہ ہوا۔ یہ الگ بحث ہے کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم ہونے چاہیے تھا یا الگ صوبہ بننا چاہیے تھا وقت کی ضرورت یہ تھی کہ ایف سی آر کا خاتمہ ہو۔

فاٹا اصلاحاتی بل کو قومی اسمبلی، کے۔ پی۔ کے اسمبلی، سینٹ اور صدر سے منظور کر والیا گیا۔
فاٹا اصلاحات کا اہم نکتہ وفاق کے زیر اہتمام قبائیلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانا تھا۔ 2018ء کے انتخابات کے فورا بعد جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں گے۔ قبائیلی علاقوں کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی دی گئی۔ جس میں 20 ارکان صوبائی اسمبلی میں قبائلی علاقوں کی نمائندگی کریں گے۔

ایف سی آر کو ختم کر کے پشاور ہائیکورٹ اور پاکستان کی سپریم کورٹ کا دائرہ ان قبائیلی علاقوں تک وسیع کیا گیا۔ فاٹا میں چونکہ انتظامی سربراہ پولیٹکل ایجنٹ ہوتا ہے اصلاحات کے بعد ان انتظامی امور کی نگرانی کے لیے اس ملک کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی سول سروسز کا ڈھانچہ ترتیب دیا گیا۔

لیویز کے 20 ہزار جدید افراد بھرتیکیے جائیں گے جو کہ خوش آئند ہے۔
فاٹا کے لوگوں کے سب سے زیادہ تخفظات آرڈیننس FIGR پر ہیں اس آرڈیننس کے آرٹیکل کی شق نمبر 20 کے تحت کسی شخص یا گروہ کو جو ریاست یا پاکستان میں موجود کسی شحص کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف کروائی کا حق انتظامیہ نے رکھا ہے اب اس کا فیصلہ کرنے کا حق کس کے پاس ہوگا یہ ایک اہم سوالیہ نشان ہے۔ اور اس آرڈیننس کے تحت پولیٹکل ایجنٹ جسے اب ڈپٹی کمشنر کہا جائے گا اختیار ہوگا کہ وہ کسی قبائلی کی سرکاری مراعات کسی جرم کی سزا کے طور پر بند اور ضبط کرسکتا ہے۔ اور آرڈیننس اس بات پر مکمل خاموش ہے کہ کب تک ایک مجرم کو عدالت میں پیش کرنا ضروری ہوگا؟ حالانکہ ضروری تو یہ تھا کہ جلد از جلد مجرم کو عدالت کے سامنے پیش کیا جا سکے تاکہ اس کا جرم بھی معلوم ہوسکے اور اس کے خاندان کو بھی معلوم ہوجائے کہ وہ کس جرم میں گرفتار ہوا ہے۔

اس آرڈیننس میں نہیں بتایا گیا کہ FIGR کتنی مدت کے لیے نافذ العمل ہوگا۔
بہرحال صدیوں کا گند اتنی جلدی صاف نہیں ہوسکتا۔ خوشی اس بات کی ہے کہ فاٹا سے ایف سی آر جسے کالے قانون کا خاتمہ ہوگیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).