کس کا احتجاج؟


 حق مانگنا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ میرا کیا ہے اور اس کو کیسے حاصل کرنا ہے، جانور کو یہ علم فطری طور پر ہوتا ہے مگر انسان کے معاملے میں ایسا نہیں۔ اسے بتانا بلکہ سکھانا پڑتا ہے۔ اس عمل کے دوران یہ تعین کرنا بھی از حد ضروری ہے کہ کیا حق ہے اور کیا نہیں۔ پھر کیسے اس کے لیے آواز بلند کرنی ہے۔

انسان بنیادی طور پر اپنی ذات سے جڑا ہے لیکن زندہ رہنے کے لیے اسے گروہ کی صورت میں کئی کام کرنا پڑتے ہیں، اسی کے نتیجے میں سماج کی شکل بنی، اپنے مسائل کو مل کر حل کرنے کی عادت اپنائی، جب کبھی کہیں، کچھ نہ ملا، گروہ اور گروپ کی صورت احتجاج کیا اور اپنا حق حاصل کر لیا۔ اس دوران لڑائیاں بھی لڑنا پڑیں، جان سے ہاتھ دھونے کی نوبت تک آئی۔ مزدوروں کو لاٹھی اور گولی بھی کھانا پڑ گئیں۔ یونین اور جماعت بنا کر حقوق کی جنگ لڑنے کی داستانوں سے انسانی تاریخ بھری پڑی ہے۔

یہ احتجاج اتنا موثر اور طاقتور تصور کیا جانے لگا کہ سرمایہ داروں اور وڈیروں کے لیے خوف کی علامت بن گیا، اپنے محکوموں کے اکٹھے ہونے پر دباؤ میں آ جاتے حتیٰ کہ اس صورت احوال کے مقابلے کے لیے ان قوتوں نے بڑی حکمت عملی بنا کر باقاعدہ جنگی بنیادوں پر حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کو نہ صرف خاموش کرایا بلکہ ان کی قوت کو مختلف ہتھکنڈوں سے کمزور کرنے کے طریقے نکال لیے۔

ظالم اور مظلوم کے درمیان یہ جنگ ازل سے ابد تک جاری رہے گی۔ یہ کبھی ایک دوسرے سے مخلص نہیں ہو سکتے۔ احتجاج کا حق بھی کہیں کہیں نہیں ملتا، ایسی صورت میں بے بس ہوکر جب آواز اُٹھتی ہے تو وہ پھر سب کو بہا لے جاتی ہے۔ جدید دور کے تقاضے بدلے مگر جبر کی قوتوں نے اس میں بھی جدید طریقے ڈھونڈ لیے۔

عوام سے مجموعی طور پر ہونے والے ظلم وزیادتی کے خلاف جدوجہد دنیا کے اکثر ممالک میں بڑی کامیاب رہیں۔ حکمران گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے، بڑے بڑے انقلاب آگئے۔ ان سب کے پیچھے موثر اور بھرپور احتجاج ہی ہوتا۔

پاکستان کے ماضی میں قومی ایسے احتجاج دیکھ چکی ہے جن کے دوران ہونے والا تشدد افراتفری اور عدم استحکام آج بھی تاریخ کا حصہ ہے لیکن کیا یہ احتجاج نتیجہ خیز ثابت ہوئے، کیا ان احتجاجوں کے بعد تبدیلی صرف عوامی دباؤ کے بل بوتے پر آئی اور ان کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق، اس سے پہلے بھٹودور میں بھی مختلف جماعتیں اور ٹریڈ یونین تنظیموں نے بڑے احتجاج کیے، جن میں پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔

جنرل مشرف کی حکومت کو بھی دباؤ کا سامنا رہا۔ حالیہ دور میں نوازشریف حکومت کے خلاف تحریک انصاف اور دیگر مذہبی جماعتوں کے دھرنے توجہ کا مرکز رہے۔ یہ ایسے احتجاج تھے، جنھوں نے طول پکڑا اور پھر ریاستی اداروں خصوصاً اسٹیبلشمنٹ  کو بھی مداخلت کرنا پڑی۔

یہی نواز شریف جب ججز کی بحالی کے لیے جی ٹی روڈ پر آئے تو پیپلزپارٹی کی حکومت شاید اتنے دباؤ میں نہیں تھی۔ اسٹیبلشمنٹ نے بیچ میں آ کر مطالبات مان لینے کی یقین دہانی کرا دی۔ اسلام آباد میں مذہبی جماعت نے دھرنا دیا۔ اگرچہ مطالبہ کوئی مضبوط بنیاد نہیں رکھتا تھا لیکن انھیں وہاں سے اٹھانے کے لیے جیسے پوری ریاست نے سر جوڑ لیے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ احتجاج کرنے والوں نے بڑی کامیابی سے دار الحکومت کے معمولات معطل کر رکھے تھے۔ لیکن یہی اسٹیبلشمنٹ جب چاہتی ہے ایسے کسی احتجاج کو پوری قوت سے نہ صرف ختم کردیتی ہے بلکہ اس کے آثار تک مٹا دیتی ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے احتجاج کا یہ جمہوری حق بھی ان غیر جمہوری قوتوں کا مرہون منت ہوکر رہ گیا ہے۔ کس کا مطالبہ جائز اور کس کی صدائے احتجاج درست ہے اس کا فیصلہ جیسے انھی قوتوں نے کرنا ہوتا ہے۔

پاکستان میں کچھ نہیں پتا چلتا حکمران خود فریادی بن جاتے ہیں، اور دوسروں سے حق مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کیمپ لگا کر لوڈ شیڈنگ کی دہائی دیتے اور پنکھے جھلتے ہیں۔ کبھی عدالتوں کے فیصلوں پر سینہ کوبی کرتے ہیں۔ عوام دیکھ رہے ہیں، وہ حکمرانی کی مسند پر بیٹھے ہیں اور پھر عوام کے حقوق کی دہائی نہ جانے کسے دے رہے ہیں۔

لوگ سیاسی جماعتوں کی باتوں، دعوؤں اور نعروں کو جانچنے میں لگے رہتے ہیں کون درست بات کررہا ہے اور کس کا احتجاج ان کے لیے ہے، ایک عوام کے لیے کوئی کام کرتا ہے دوسرا اس پر احتجاج کرتا ہے کہ یہ عوامی پیسے کا زیاں ہے، وہ کس کے حق کی بات کرتا ہے اور کیا اس کا احتجاج ٹھیک ہے۔ اب یہ بحث زیادہ پے چیدہ نہیں بلکہ اپنی پسند اور نا پسند کے درمیان رہ گئی ہے۔

اصل میں عوام نے اپنے حقوق کا تعین خود کرنا ہے اور اس کے لیے آواز بلند کرنے والوں سے اپنی آواز ملانا ہے۔ اس میں اقتدار کے خواہشات مندوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کے درمیان رسہ کشی سی کیفیت ہے اب ایک بار پھر اس دوڑ میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد بن گیا۔ جن کا مقصد حصول اقتدار کے سوا کچھ نہیں ہوتا مگر اس سب کو مذہب کے نام میں ملفوف کرکے پیش کرتے ہیں۔ ان کے احتجاج بھی اس وقت ہی ہوتے ہیں جب انھیں کوئی فائدہ یا نقصان نظر آتا ہے۔

لوگوں کے ساتھ کون ہے، لوگوں کو نہیں معلوم ہوگا۔ کیوں کہ عام آدمی کو حق حکمرانی صرف نعروں میں ملتا ہے اور اگر وہ کسی طور مسند پر بیٹھا بھی دیا جائے تو پھر وہ آدمی نہیں رہتا ہے، طبقہ بدل لیتا ہے۔ وہ حق اور احتجاج کی باتیں کسی کتاب میں چھوڑ آتا ہے۔ اس سب کے باوجود فیصلہ لوگوں نے خود اور مل کر ایک گروہ کی صورت کرنا ہے، کہ اپنے حق کی جنگ کیسے لڑنی ہے، انھیں اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar