دو جاسوس کشمیر پر کیا کہتے ہیں؟


میں نے نومبر دو ہزار سترہ میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم جناب شاید خاقان عباسی کے ایک بیان کے رد عمل میں مضمون لکھا تھا، انہوں نے لندن سکول آف اکنامس کی ایک کانفرنس میں خود مختار کشمیر کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے لیے کوئی حمایت یا مطالبہ موجود نہیں ہے۔ وادی کی ایک کشمیری مسلمان عورت کی حیثیت سے یہ میرے لیے یہ ایک ایسی خبر تھی، جس کا مطلب تنازع کو جوں کا توں رکھنا، اور میدان جنگ میں میری جگہ کو مزید محدود کرنا تھا۔ یہ شاید واحد وجہ ہے کہ میں نے حال ہی میں شعائع ہونے والی کتاب، جاسوس کی کتھا، آخر تک پوری دلچسبی سے پڑھی، جو پاکستان کی انٹر سروسز ایجنسی کے سابق سربراہ اسد درانی اور بھارت کی انٹلیجنس بیورو اور ریسرچ اینڈ اینا لایزنگ ونگ کے سابق سربراہ اے ایس دولت کے خیالات پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں میری دلچسبی درانی کے اس موقف سے بڑھ گئی کہ پاکستان کی طرف سے خودمختار کشمیر کے بیانیے کو مٹانا ایک بڑی غلطی تھی

یہ کتاب کسی بھی طرح سنسنی خیز نہیں، نہ ہی اس میں کو ئی نیا انکشاف ہے، خصوصا ان لو گوں کے لیے جو کشمیر کی سیاست، سماج اور ثقافت میں جڑیں رکھتے ہیں۔ اس میں خفیہ سمجھی جانے والی کوئی ایسی معلومات بھی نہیں، جو دونوں ملکوں کی کشمیر پالیسی یا اس حوالے سے ان دونوں کے دوسری طاقتوں کے ساتھ تعلقات کے کسی خفیہ گوشے کو بے نقاب کرتی ہو۔ اسد درانی اور دولت دونوں گپ شپ اور بے کار مذاق کے آداب سے واضح طور واقف ہیں۔ کتاب کا کچھ حصہ قیاسی، سوچ بچار اور کاک ٹیل پارٹی میں ہونے والی گفتگو پر مشتمل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ یہ سن کر حیران ہوئے کہ پاکسان کے وزیر داخلہ نے اسد درانی کا نام ایگزٹ کنٹرول میں ڈال دیا ہے۔ یہ اقدام ملٹری انٹیلیجنس کے کہنے پر اٹھایا گیا ہے۔

اگرچہ دولت اور درانی کی روایتی انداز سے ہٹ کر کشمیر کے مئسلے کے حل کی بات میں کوئی زیادہ سنجیدگی نہیں ہے، مگر یہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے ہٹ کر سوچنے کی کوشش ضرور تھی جس سے لائن آف کنٹرول کی دونوں اطراف کے علاقے آزاد اور نیم خود مختار بن سکتے تھے، اور جس سے کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان ایک اہم مئسلے کے طور پر سامنے آتا تھا۔

کتاب کے کشمیر سیکشن میں میرے لیے سب سے دلچسب بات اسد درانی کا یہ اعتراف تھا کہ اگرچہ پاکستان کے اندر دہشت گرد، بنیاد پرست اور انتہا پسند پہلے بھی موجود تھے، لیکن پاکستان میں دہشت گردی کے موجودہ مرحلے کی وجہ جنرل مشرف کا سن دوہزار چار کا فیصلہ تھا، جس کے تحت فوج کو جنوبی وزیرستان بھیجا گیا، اور سے تحریک طالبان میں مزید شدت پسندی پیدا ہوئی ۔ درانی نے یہ تو نہیں کہا لیکن میرا خیال ہے کہ یہ بھارت کی سخت سفارت کاری تھی جس کی وجہ سے امریکہ نے مشرف پر دباو ڈالا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف فوج کشی کریں جو کشمیر میں لڑنے والوں کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ پاکستان کی ہیت مقتدرہ میں ہر کوئی اس بیانیے کو نہیں مانے گا۔

گیارہ ستمبر کے وقت، جیسا کہ میرے سمیت کئی اور نے بھی لکھا ہے، بھارت امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان کو یہ منوانے میں کامیاب ہو گیا تھا کہ وہ کشمیری مجاہدوں کی خفیہ یا کھلی حمایت بند کر دے۔

درانی اور دولت دونوں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اچھے ہو جاتے ہیں وہ کشمیریوں کے مصائب کو بھول جاتے ہیں۔ سرحدوں کے دونوں طرف کی ہیت مقتدرہ کے کئی لوگ یہ ماننے سے کتراتے ہیں کہ کشمیر پر سودے بازی ہوتی ہے۔

پاکستان کے سرکاری موقف کے برعکس، درانی جموں کشمیر کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے علاوہ اس کی خود مختاری کے امکانات کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں نے اس راستے کو نہیں تسلیم کیا، اور اس کے بجائے ابتدائی تحریک میں مذہبی گروہوں کی مدد کو ترجیع دی۔ جماعت اسلامی اور قیوم خان کی حمایت ہماری اس شدید خواہش کا نتیجہ تھا کہ کشمیر پاکستان بن جائے۔ رائے قائم کرنا یا فیصلے دینا ہمارا کام نہیں تھا۔ اگر بھارت کے ساتھ ساٹھ ستر سال رہنے کے باوجود کشمیری خود مختاری چاہتے ہیں تو ان کے جذبات کی بھی قدر ہونی چاہیے، اگر کشمیری خود مختار ہوئے تو وہ بھارت سے اچھے تعلقات رکھیں گے، وہ مختلف وجوہات کی بنا پر چین سے بھی رابطہ کریں گے، لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کے دل اپنے مغربی ہمسائے کے ساتھ ہوں گے۔ اس لیے اگر کوئی خود مختاری کی بات کرتا ہے تو یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم اس کے راستے کی رکاوٹ بنیں۔ پاکستان کی آئی ایس آئی یا فوج کے کسی سابق عہدے دار کے لیے کشمیر کی خود مختاری کے امکانات پر بات کرنا ہی کئی لوگوں کے لیے پریشان کن بات ہے،

کشمیر میں آئی بی اور ائی ایس آئی نے مقامی جمہوری اور سیکولرسیاسی اداروں کو برباد کرنے میں بڑاحصہ ڈالا ہے۔ یہ ادارے اب بھی ہمارے پارہ پارہ سماج میں عجیب الخلقت شکل میں موجود ہیں۔

(ترجمہ: بیرسٹر حمید باشانی  خان)

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan