چرن جیت سنگھ، ماسٹر نور محمد اور سبز پرچم


ماسٹر نور محمد ‘پیپل والے کھوہ’ سے روزانہ بارہ چودہ میل سائیکل چلا کر ہمارے گاؤں پڑھانے آتے تھے۔ دھول سے اٹے کچے راستوں پہ سائیکل چلانے کے باوجود ان کے چہرے پہ تھکاوٹ کا کوئی نشاں نہ ہوتا بلکہ سرخ و سفید چہرے پہ ایک دلکش مسکراہٹ پھیلی رہتی۔ موسم بدلتا تو درختوں کے پتے جھڑ جاتے یا ان کے رنگ پھیکے پڑ جاتے لیکن نور صاحب کی مسکراہٹ ایسا پھول تھا جو ہر موسم میں کھلا رہتا۔ درمیانہ قد ان کو بہت جچتا تھا۔ بغیر سلوٹ کے صاف ستھری شلوار قمیض زیب تن کرتے۔ روزانہ شیو بنی ہوتی اور سر کے سیاہ بال خوب تراشے ہوتے۔ ان کی سہراب سائیکل بھی صاف ستھری اور چمکدار تھی۔ روزانہ چھٹی سے آدھا گھنٹہ پہلے ہماری کلاس کے کوئی سے دو لڑکے کپڑے کے ٹکڑے سے مزید چمکا دیتے تھے۔

چوتھی جماعت میں ہمیں ان سے پڑھنے کا موقع ملا۔ اساتذہ کے خوف اور سکول کی تھکا دینے والی زندگی سے ہم سہمے سے رہتے تھے۔ نور صاحب کے آنے سے ہمارے سکول کی بے نور زندگی نے انگڑائی لی اور یوں رنگوں میں نہا گئی گویا قوس قزح کے سارے رنگ اوڑھ لیے ہوں۔ نور صاحب کے رویے میں باپ کی سی شفقت تھی۔ وہ ہمیں محنت سے پڑھاتے۔ ہماری غلطیوں پہ درگذر کرتے اور ہمارے دلوں میں کتابوں سے لگاؤ کے ننھے ننھے بیج بوتے جاتے۔ وہ ہماری بات کو اہمیت دیتے تو ہمیں لگتا کہ ہم بھی ڈھنگ کی بات کر سکتے ہیں۔ وہ ہمیں دھتکارتے نہیں تھے بلکہ سبق سناتے ہماری زبان لڑکھڑاتی تو وہ یوں ہنستے چہرے سے ‘شاباش’ کہتے کہ دل خوش ہو جاتا۔ سکول میں بھی بچوں کو گھر کا احساس دینے کا فن نور صاحب کے پاس ڈھیروں موجود تھا۔ انہوں نے ہمارے ٹوٹے پھوٹے اعتماد کی کرچیوں کو دوبارہ جوڑ دیا اور خوف زدہ سہمے بچپن کے سر پہ محبت سے ہاتھ پھیر دیا۔

 فارغ وقت میں ہم گپ شپ لگا لیتے تو نور صاحب برا نہیں مانتے تھے۔ سیاہی کی دوات سے قلم ڈبو لینے کی شکایت پہ بھی وہ کسی بچے کو مرغا نہیں بناتے تھے۔ تختی پہ ذرا سی زیادہ ‘گاجنی’ لگ جانے سے جب قلم نہ چلتا تو وہ تھپڑ رسید نہ کرتے بلکہ کپڑے یا سیاہی چوس رگڑ کر تختی ملائم کر لیتے۔ وردی پہ اگر سیاہی گر جاتی تو وہ ‘سوٹا’ اٹھاۓ پیچھے نہیں پڑ جاتے تھے۔ پہاڑے یا سبق بھول جانے پہ ہماری پسلیوں پہ ٹھڈا نہیں مارتے تھے۔ زمیں پہ بچھے ٹاٹ پہ بیٹھے سبق یاد کرتے بچوں پہ وہ ڈنڈا لہراتے چکر نہیں کاٹتے تھے۔ سلیٹ پہ ریاضی کے سوال حل کرتے اگر جمع تفریق کی کوئی غلطی ہو جاتی تو غصے سے لال پیلے ہرگز نہیں ہوتے تھے۔ سکول کی دو روپے ماہانہ فیس کسی بچے کی لیٹ ہو جاتی تو اسے دھوپ میں کھڑا رہنے کی سزا نہیں سناتے تھے۔ کسی بچے کی ‘نیلی وردی’ پھٹی ہوتی یا جوتے پرانے ہوتے تو وہ سب کے سامنے تذلیل نہیں کرتے تھے۔ وہ پیار سے سمجھاتے۔ پڑھنے کی تلقین کرتے اور صفائی کا خیال رکھنے کی نصیحت کرتے۔ ان کے ہنستے ہونٹوں سے جو بات نکلتی وہ سیدھی ہمارے دلوں میں اتر جاتی۔

 ہم پڑھائی میں بہتر ہونے لگے۔ ٹاٹ یا بوری پہ مٹی جھاڑ کر بیٹھنے لگے۔ پرانے جوتوں کو گیلے کپڑے سے صاف کر کے سکول آنے لگے۔ اپنے گرد آلود بکھرے بالوں کی گرد ہٹا کر سرسوں کا تیل لگانے لگے۔

ہمارے پرائمری سکول کی چار کمروں کی عمارت کے ماتھے پہ ایک خوشنما پتھر کی تختی ثبت تھی جس پہ یہ عبارت درج تھی ‘یہ اسکول ریاستہاۓ متحدہ امریکہ کے تعاون سے 1975 میں تعمیر کیا گیا۔’ اس عبارت کے نیچے شاید یہی بات انگریزی میں لکھی ہوئی تھی۔ انگریزی کی اے بی سی ہم نے چھٹی جماعت میں پڑھنا سیکھی تھی۔ 1975 کی بنی عمارت اگرچہ بہتر حالت میں تھی لیکن گاؤں میں بجلی نہیں تھی جس کی وجہ سے کمروں کے حبس میں بیٹھنا ممکن نہ ہوتا تھا۔ سکول کی چار دیواری بھی نہیں تھی۔ ایک لیٹرین تھی جو اساتذہ کے لیے مختص تھی۔ قدرت کی کال آتی تو بچے قریبی مسجد کے غسل خانے کا رخ کرتے۔ یا پھر سکول کے آس پاس زرعی زمیں ہی کام آتی۔ سکول میں سہولتوں کی کمی ضرور تھی لیکن یقین کیجیے امریکہ کے تعاون سے تعمیر کردہ سکول کے صحن میں تین دیو ہیکل نیم، ایک بہت بڑے شرینہہ، ایک گوندنی، دو بیریوں اور ٹاہلی کے درختوں کی گھنی اور ٹھنڈی چھاؤں تھی۔ شریہنہ کے نیچے لگے نلکے سے ٹھنڈا پانی بہتا تھا اور نور صاحب ایسے استاد پڑھاتے تھے۔ پسماندہ گاؤں کے بچوں کی یہی جنت تھی۔

نور صاحب ہمیں چھوٹی چھوٹی کہانیاں سناتے تو ہم ہمہ تن گوش سنتے رہتے۔ وہ کسان فیملی سے تعلق رکھتے تھے لہذا ہمیں اپنی گیہوں، دھان، کپاس اور گنے کی فصلوں کا احوال بتاتے۔ اپنے مال ڈنگر کے دلچسپ قصے سناتے۔ ہمیں ان کے اکھڑ مزاج بیل کی کتھا آج بھی یاد ہے کہ کب کب اسے غصہ آتا، کس کس کو ٹکر مار کر زخمی کر چکا تھا اور نور صاحب کے پاس اسے قابو کرنے کا کیا نسخہ تھا۔ نور صاحب گائے بھینسوں کا چارہ بھی کاٹتے اور کٹائی کے موسم میں درانتی پکڑ گھر والوں کا ہاتھ بھی بٹاتے تھے۔ ان کی یہ سب باتیں ہمارے لیے تفریح (Energizers) ہوتیں۔ پھر ہم اردو، معاشرتی علوم یا سائنس کی کتاب کھول کر پڑھنے لگتے تو کتاب کی باتیں بھی اتنی ہی بھلی لگتی تھیں جتنی نور صاحب کے نٹ کھٹ بیل کی دلچسپ کہانی۔

سکول کا کام اچھا کرنے پہ نور صاحب ہمیں کھیلنے کا وقت دیا کرتے تھے۔ ہم اپنے کپڑے کے تھیلوں سے سگریٹ کے خالی پیکٹوں سے بنے ‘تاش کے پتے’ نکال لیتے اور ان سے طرح طرح کی گیمز کھیلتے۔ کوکا کولا بوتل کے ڈھکن سے دو سوراخ کر کے دھاگہ ڈالتے اور اس کی ‘بھمیری’ بنا لیتے اور اسے گھماتے رہتے۔ پلاسٹک یا ربڑ کی گیند کوئی لاتا تو اسے کیچ کرتے رہتے۔ ‘گگڑیں'(بنٹے) جیب میں بھر لاتے اور ان سے ‘کلی جوٹا’ کھیلتے رہتے۔ پرانی کتابوں سے تصویریں کاٹ لاتے اور سبھی کو دکھاتے پھرتے۔ بکائن سے توڑی ڈوڈیاں یا ٹوٹے گھڑے کے ٹکڑوں سے تراشے گول مٹول ٹکڑے ہمارے کھیل کا ساماں بن جاتے۔ سلیٹ پہ بے ڈھنگی تصویریں بنا کر ہنستے رہتے۔ ہمیں کھیلتا دیکھ کر نور صاحب کی مسکراہٹ کا دریا سمندر ہو جاتا۔

 وہ سب بچوں کو مساوی پیار بانٹتے تھے۔ ان کی کلاس میں ہیڈ ماسٹر کا بیٹا، کسان کا بیٹا، ترکھان، لوہار یا زمیندار سب کے بچے برابر الفت کے حقدار ٹھہرتے۔ وہ تفریق روا نہیں رکھتے تھے۔ ذہین اور کند ذہن بچے کا فرق انہوں نے ختم کیا۔ ان کے نزدیک ہر بچہ اہم تھا۔ جیسے ایک باپ کے لیے سارے بچے پیار، محبت اور دیکھ بھال کے برابر کے مستحق ہوتے ہیں۔ نور صاحب وہ شمع تھے جس کی روشنی سے سبھی طالب علم یکساں روشنی پاتے تھے۔ کوئی اندھیرے میں نہ رہتا۔

 ڈرائنگ کا مضمون ہمیں باقاعدہ نہیں پڑھایا جاتا تھا لیکن امتحان میں اس کا پرچہ ضرور شامل ہوتا تھا۔ پانچویں جماعت تک ہم بس پیپل کا پتہ، آم، خربوزہ، گیند اور پاکستان کا جھنڈا بنانے کی تگ و دو ہی کرتے رہے۔ ہم جب بھی کوئی چیز بنا کر نور صاحب کو دکھاتے تو وہ ‘شاباش’ کی ایک لمبی تان کھینچ کر ہماری حوصلہ افزائی کرتے۔ آم چاہے کدو سے مشابہہ ہوتا وہ پھر بھی تعریف کرتے۔ خربوزہ خواہ فٹ بال دکھائی پڑتا پھر بھی وہ ہماری کمر تھپکاتے اور مسکراتے رہتے۔ ‘پیپل والے کھوہ’ کے بسنے والے نوجوان سکول ٹیچر کو حوصلہ شکنی کرنا نہیں آتا تھا۔

 نور صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ ہمارے جھنڈے کا سبز رنگ مسلمانوں کی اور سفید رنگ غیر مسلم ہم وطنوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک بار ہماری جماعت کے بچے نے جھنڈا بنایا تو غلطی سے اس میں سارا سبز رنگ ہی بھر دیا تو نور صاحب نے کہا تھا یہ ہمارے دیس کا جھنڈا نہیں ہے۔ یہ ملک صرف مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں کا بھی ہے جو یہاں آباد ہیں۔ ہم سفید رنگ کے بنا نامکمل ہیں۔ ہمارے پرچم کی خوبصورتی دونوں رنگوں کے دم سے ہے۔ ایک رنگ نکل جائے تو دوسرا بھی پھیکا پڑ جاتا ہے۔

پھر وہ اداس دن بھی آیا جب نور صاحب کا تبادلہ ہو گیا تھا۔ ہم سب بہت پریشان تھے۔ وہ اپنی سہراب سائیکل پہ بیٹھے انہی کچے راستوں پہ واپس چلے گئے اور پھر نہیں لوٹے۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ ہم ہائی سکول، پھر کالج اور کالج سے یونیورسٹی چلے گۓ۔ تقریبا اڑہائی دہائیاں مٹھی بھر زندگی سے ریت بن کر کھسک گئیں۔ اس عرصے میں میرے دیس پہ کئی زمانے بیت گئے۔ وقت نے کیا کیا رنگ بدلے۔ اقلیتوں کے لیے یہ وقت سازگار نہیں رہا۔ اس دوران عیسائی بستیوں کو ہم نے جلتے دیکھا اور اف تک نہ کی۔ کتنی بار چرچ پہ حملے ہوئے اور ہم اپنی مسجدوں کے محفوظ ہونے پہ شاد رہے۔ کتنے پاکستانی مجبور ہندؤوں کے مذہب تبدیل کروانے کی خبریں ٹی وی چینلوں کی زینت بنیں۔ ہم کتنے ہی لوگوں کو اپنے عقیدے اور مذہب کے دائرے میں ڈنڈے سے ہانک لائے اور کتنوں کے پیچھے لٹھ لے کر لگے کہ وہ اس دائرے سے اپنا بستر گول کریں۔ ہندو مندر مسمار کیے گئے اور ان کی مورتیوں کی بے حرمتی کی گئی۔ ہمارے لیے وہ پتھر سے تراشے بت ہوں گے ان کے لیے وہ بھگوان اور خدا ٹھہرے۔ ظاہر ہے ان کے لیے انتہائی مقدس بھی۔ کتنے ہزارہ قتل ہوئے اور کتنے اپنی اور بچوں کی جان بچانے کے لیے ملک چھوڑ گۓ۔ ہم نے بہت سوں کے لیے جگہ تنگ کر دی۔ بہت سوں کو اپنا وطن، اپنی جنم بھومی اور اپنا سب کچھ چھوڑنے پہ مجبور کر دیا۔ ہم نے تو قبروں کے کتبے نوچ ڈالے۔ اور جیتے جاگتے انسانوں کو بھٹوں میں جھونک دیا۔

ہم اپنے مذہب کے پرچار اور حفاظت میں اتنے جذباتی ہو گئے کہ اپنے ہی مذہب کی انسانی جان اور دوسرے مذہب کے احترام کی تعلیمات سے بے پرواہ ہو گئے۔

پچھلے دنوں مذہبی ہم آہنگی کے پرچارک سکھ رہنما چرنجیت سنگھ کو بھی قتل کر دیا گیا۔ وہ پاکستانی تھے اور تمام مذاہب کا بے حد احترام کرنے والے۔ فیس بک پہ ان کی تصویر دیکھی جس میں وہ پاکستانی جھنڈا پکڑے کھڑے ہیں اور مسکرا رہے ہیں۔ جھنڈے کا سفید رنگ ان کی سفید داڑھی کو چھو رہا ہے۔ چرنجیت سنگھ کی دلکش مسکراہٹ دیکھ کر مجھے ماسٹر نور محمد یاد آ گۓ۔ ساتھ وہ دن بھی یاد آ گئے جب ہم جھنڈا بنا کر اس میں سبز رنگ بھرتے تھے اور تھوڑا سا حصہ سفید رہنے دیتے تھے۔

کوشش کرنے پہ معلوم ہوا کہ نور صاحب اب بھی گاؤں سوچان کے پرائمری سکول میں پڑھاتے ہیں۔ بس سال آدھ سال میں ریٹائر ہونے کو ہیں۔ نہ جانے ایسے ملکی حالات دیکھنے کے بعد بھی ان کی مسکراہٹ زندہ ہو گی یا کب کی مرجھا چکی ہو گی۔

اب جب ان کے سکول کا کوئی بچہ جھنڈے میں سارا سبز رنگ بھر دیتا ہو گا تو شاید نور صاحب اعتراض نہ کرتے ہوں گے۔ پھیکے سے دل سے کہتے ہوں گے ‘شاباش بیٹا، بہت اچھا جھنڈا بنایا ہے۔ ہمارے دیس کے پرچم میں اب سبز رنگ ہی تو بچا ہے۔’

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti