تعلیمی ادارے اور جنسی ہراسانی


تعلیمی ادارے اور جنسی ہراسانی۔ یہ دو الفاظ ایک ساتھ پڑھ کر دل میں ایک چبھن سی محسوس ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں جامعات مقدس مقامات تصور کی جاتی ہیں اور کیوں کر نہ ہوں؟ صرف جامعات ہی ایک ایسا محفوظ، کھلا ماحول مہیا کرسکتی ہیں جہاں بات کرنے کی اور علمی مباحث کی گنجائش موجود ہوتی ہے تاکہ تخلیقی اذہان پیدا کئے جا سکیں۔ جہاں پر یہ آزادی موجود نہ ہو اور گھٹن، تعصب اور تشدد گھر کر لیں تو سمجھ لیجئے کہ ایسی جامعات کا بیڑا پار ہوگیا اور اب وہاں سے مبلغ، تاریخ دان، سائنس دان اور دیگر شعبوں کے ماہرین تو نہیں نکل سکتے۔

ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے اور اس امر کی گہرائی کو سمجھئیے۔ ہماری جامعات تشدد کے حملے کا شکار ہیں۔ اساتذہ اٹھائے جا رہے ہیں، کہیں ان پر الزامات لگائے جا رہے ہیں، انہیں “غدار” کہا جا رہا ہے اور کوئی بھی علمی بحث جو “با اختیار” حلقوں پر گراں گزرتی ہے اس کو روک یا دبا دیا جاتا ہے۔ یہ امر صرف سرکاری جامعات میں ہی نہیں بلکہ نجی جامعات میں بھی بھرپور رائج ہے.

لیکن جنسی ہراسانی کا مسئلہ جس کو آج سے پہلے تک کارپٹ کی نیچے ڈال دیا جاتا تھا اور ہم ایک سماج کی حیثیت سے اس کو قطعی طور پر ماننے کو تیار ہی نہیں تھے، اسلام آباد کی بحریہ یونیورسٹی میں ہونے والے واقعے کے بعد توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس پر حکومتی اداروں، کالج اور میڈیا متحرک ہوئے ہیں۔ صرف لفاظی سے ہٹ کر کچھ ٹھوس اقدامات جیسے ہراساں کرنے والےایگزامنر سعادت بشیر کو برطرف کیا جا رہا ہے اور ایک باقاعدہ انکوائری کمیٹی معاملے کی چھان بین کر رہی ہے۔ ہراسانی کا شکار ہونے والی طالبات کا نام صیغہ راز رکھنے کے ساتھ ان سے لکھت میں واقعے کے بارے میں بیان لیا جا رہا ہے۔جو کہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔ اب ہمارا معاشرہ ان بچیوں پر روایتی الزامات کی بوچھاڑ بھی نہیں کر رہا جو عام طور پر ہراسانی کا شکار ہونے والی خواتین پر لگائے جاتے ہیں۔ معاملات کس رخ چلتے ہیں، یہ صرف وقت ہی بتا سکتا ہے۔

کچھ چیزیں جو ابتدائی مرحلے پر سامنے آئی ہیں وہ کافی پریشان کن ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان بچیوں کی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ واقعے سے آگاہ تھی اور انہوں نے بچیوں کو خاموش رہنے کا کہا۔ دوسری بات یہ کہ وہ سعادت بشیر پہلے بھی ہراسانی کرنے کے الزامات کا شکار رہا تھا اور اس کے باوجود اس کو خواتین کے ادارے میں ڈیوٹی دی گئی، اس کے ساتھ، ساتھ ہمارے تعلیمی ادارے اتنے ناقص ہیں کہ ایسے بھیڑیے ہمارے بچے، بچیوں کے استاد جیسے مقدس فریضہ سے وابستہ ہیں جن کی مخالفت کوئی ادارہ یا ڈیپارٹمنٹ اس امر میں نہیں کرتا۔

میں اس تکلیف دہ واقعے کو ایک بے ربطگی نہیں سمجھتا، بلکہ یہ ایک منظم معمول ہے۔ ہراسانی ہمارے تعلیمی اداروں میں ایک زندہ جاگتی حقیقت ہے۔ چاہے وہ طلبہ کے درمیان ہو، اساتذہ اور طلبہ میں ہو، اسٹاف اور طلبہ یا پھر ہمارے “شرارتی لونڈوں” کی طرف سے ہو جو عمومی طور پر لڑکیوں کے اسکول اور کالجز کا “باقاعدگی” سے طواف کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے بچوں کو روزانہ پتہ نہیں کتنے ہی سعادت بشیروں کا تن تنہا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم اس چیز کو ماننے سے انکار کریں تو ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھئے اور سوچئیے کہ کیا آپ نے کبھی ایسے واقعے کا سامنا نہیں کیا؟ یا ایسا واقعہ آپ کی نظروں کے سامنے نہیں پیش آیا؟ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو مان لیجئے کہ آپ بہت خوش قسمت ہیں، کیونکہ جس معاشرے سے میں آیا ہوں، وہاں یہ ایک زندہ جاگتی حقیقت ہے۔

ہراسانی سیل کے قیام کا نوٹس ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے تمام یونیورسٹیز کو بھیجا گیا تھا، لیکن اس پرکچھ خاص سنجیدگی سےعمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اس بات کا اندازہ جامعات میں ہراسانی سیلز کی عدم موجودگی سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جامعات ہراسانی سیل اور کمیٹی کا قیام وسائل کا ضیاع سمجھتے ہیں اور حکومتی ادارے بھی ہراسانی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ اس طرح ہمارے طلبہ و طالبات اپنے اذیت کے ذمہ داران کے رحم و کرم پر رہ جاتے ہیں۔ خاص کر اگر وہ بچیاں ایسے گھرانوں سے آئی ہوں جو تعلیم کے خلاف ہوں تو یہ ایک اذیت ناک صورتحال اختیار کر لیتی ہے۔ اس چیز سے ہراسانی کرنے والے یا والامزید بااختیار، حوصلہ مند اور فائدہ اٹھانے کے مقام پر آجاتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہمارے لڑکوں کے سکول میں ایک بہت اچھی شکل و صورت کا لڑکا تھا، وہ کافی ہنس مکھ اور کھلنڈرا سا تھا۔ کچھ لوگ اس میں غلط طرز کی دلچسپی لینے لگ گئے۔ لڑکا چھوٹی عمر کا تھا اور وہ لوگ بڑے۔ پھر وہ بچہ خاموش سا ہوگیا، جیسے کوئی پھول مرجھا سا گیا ہو۔ وہ بریک ٹائم میں نظر نہیں آتا تھا اور دوستوں سے بھی کٹتا رہا۔ پھر ایک دن اس کے گھر والوں نے خاموشی سے اسے سکول سے نکلوا لیا۔ کافی عرصے بعد ایک دن جب میری ملاقات اس سے ہوئی تو مجھے خیال آیا کہ اصل معاملہ کیا تھا، میرے جی میں آیا کہ میں اسے بولوں کہ قصور تمہارا نہیں تھا، اس کو گلے لگائوں اپنی اور اس معاشرے کی طرف سے معافی مانگو، اپنی خاموشی کی، بے بسی کی۔ لیکن نام نہاد معاشرتی اقدار کی وجہ سے خاموش رہا۔ لیکن میں قسم کھاسکتا ہوں کہ اس کی آنکھوں میں کچھ تھا، کچھ اورشاید اس اذیت کی باقیات، یا کچھ اور۔

ہمیں اپنی نسلوں کو بچانے اور ان کو بہتر مستقبل دینے کے لئے ہراسانی کے حوالے سے بات کرنی ہو گی، ہمیں اس غلط تصور سے نکلنا ہوگا کہ کوئی جگہ “محفوظ” ہے بلکہ ہمیں سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ اس امر کا مکمل خاتمہ ہوسکے۔ لیکن وہ اقدامات صرف معاملات کی بنیاد پر نہیں بلکہ پورے نظام میں سنجیدہ تبدیلیوں، اساتذہ کی سکریننگ کے معیارات مرتب کرنا۔ ان کی ہراسانی کے معاملے میں ٹریننگ، (کاؤنسلنگ، اور ہراسانی کے شکار کی شناخت کرنے کے طریقہ کار) اور قوانین کو سمجھنے میں ان کی مدد کرنا ہوگی۔ ہمیں ہراسانی کے خلاف پورے معاشرے کے طور پر جنگ لڑنی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).