نیلی بار: میرا دیس نیلوں نیل


کہانی نے آبِ حیات چکھی ہوئی ہے۔ وہ ازل سے زندگیوں کے ساتھ ہونے والی وارداتوں کی امانت دار ہے…. کہانی کرنے والے، کہانی لکھنے والے …. اور کہانی ہونے والے سارے کردار مرتے رہتے ہیں مگر کہانی جیتی رہتی ہے۔ قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، یُگ یُگ پھرنے والی کہانی نے بے شمار روپ بدلے۔ ان میں موجود نت نئے کردار وقت، زمانے اور حالات کے ساتھ مطابقت و مسابقت کی کاوشوں میں جتُے، اپنی جون اور چولے ادلتے بدلتے، فنا کے گھاٹ اترنے کے لئے، لمحہ بھر کو وارد ہوتے ہیں۔

کہانی کار سالم کہانی کی تلاش میں ہوتا ہے۔ انجام، آغاز سے پہلے سوچتا ہے۔ کردار تراشتا ہے۔” الف “ سے ”ے “ تک ….کا آموختہ کرتا ہے، مگر طاہرہ اقبال نے، اپنے ناول” نیلی بار “ میں طویل یا مختصر کہانی کی مادی ہیئت کے مروج پیمانوں کو یک جنبش قلم مسترد کر دیا ہے۔بس نیلی بار ہے اور اس میں مقسوم کے زیرِ اثر پنپتی، سانس لیتی مخلوق کے قصے ہیں، جوفنکارِ ازل کی مہم جوئیوں کےنتیجےمیں ، اپنا کردار نبھانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں….یوں لگتا ہے طاہرہ نے نیلی بار کے کینوس کو کچھ دیر کے لیے دنیا کے نقشے پر پھیلا دیا ہے اور اس میں موجودقدرتی و سماجی رشتوں کی ڈوریوں میں الجھے، سیاسی و اقتصادی جال میں جکڑے ، نارسائی کے منجھدھار میں اُبھرتے، ڈوبتے، غوطے لگاتے، ساحل کی آس میں ہاتھ پاؤں مارتے ….ان گنت کردار،الگ الگ شبیہوں، بولیوں اورسوچوں والے…. اپنے ہونے کے تماشے میں شامل، اپنی مرگ کے جشن میں دیوانہ وار رقصاں کردار،سب کی زندگیوں کو نشان زدہ کرکے، نیلی بار میں سمو دیا ہے۔ میرے اور آپ کے سماجی ڈھانچےکی غیر مساوی و بے رحم سانچے میں ڈھلی لغت کے دھتکارے، کول نسلوں کی باقیات،دراوڑ، شودر، لوہار، موچی، نائی، کمہار، مزدور،مراثی، مسلّی، گولے، باندے، چرواہے، کسان، ہاری،مزارعے، کمی کمین، رذیل، چوہڑے….نسل درنسل محکومی جن کے خون میں حلول ہوچکی…. جو بغاوت کا ذائقہ نہیں جانتے…. طاہرہ اقبال کے ہیروز ہیں…. اور یہ کوڑھی، بدنصیب، اونچے شملوں کے ہیر پھیر میں لپٹی کمزور جیون ہارتی ، بے نام نشان مرنے کے لیے نیلی بار میں پیدا ہونے باندیاں، ہیروئنز۔ وڈیرے،جدّی پشتی رئیس، سرمایہ دار، مذہبی دہشت گرد، پیر، مرید، گدی نشین، حویلیاں اور ان کے راز، درندہ صفت بہروپیئے، ٹارگٹ کلرز، لٹیرے، سمگلرز، اقتدار مافیا کے ہوس گیر، بدخصلت جاگیردار، ساہوکار،بدمعاش، رسّہ گیر، گرہ کٹ، املاک و زر کو ضرب در ضرب کرتے غیرانسانی رویّے، اقتصادی و معاشی ابتری اور نظامِ زر کی غیرمنصفانہ تقسیم کو جاری و ساری رکھنےکے استحصالی نظام کو مضبوط تر کرتے نعرےاور نظریے، ولن ۔

شیش محل میں بیٹھی طاہرہ نے بے رحمی کا لبادہ اوڑھ،یہ آدھ، پون صفحے کے تل تل مرتے، ڈھیر سارےکردار ، تڑخے ہوئےشیشوں کے ریزے ریزے سے اتارے ہیں،جیسے سندھی رلی کی ایک ایک ٹکڑی کو ادھیڑا اور پھر زخمی پوروں کے ساتھ سیا ہو۔نیلی بار کےکرداروں، فطرت و قدرت کے مناظر سے بال بال بندھی طاہرہ…. لفظوں کی اس بے کراں طغیانی میں ادھوری کہانیاں، ادھورے نقش، ادھوری محبتیں، ادھوری زندگیاں….سانس روکے رقم کرتی ہے۔ پلک جھپکنے جتنی ایک زندگی…. گلاں ہوسکھاں ہو یا ملکاں، ایک نظر، ایک لحظہ ، ایک نقطے جتنا کردار…. ایک ڈبے جتنا ایک کردار…. زمانے کی خودکار ٹرین دوڑتی جاتی ہے…. باہر کھڑا…. تنہا اداس فرد ہاتھ ہلاتا ہے…. ٹرین کی کوک…. دل کی ہوک…. آنکھ کی دنیا کو دھندلا دیتے ہیں۔

نیلی بار کی قرأت کا مطلب…. حیرتوں کی دنیا میں داخل ہونا ہے…. ایک بار دہلیز ٹاپی…. تو دروازہ گم…. اور جو تاب نہ لاسکے اور پلٹنے کی کوشش کی تو واپسی کے سارے راستے مسدود…. چاروں اور کوئی دیوار نہیں، مگر ہر راستہ گم…. کہانی جوگن بنی بین بجاتی ہے، قاری اس دھن کے پیچھے اپنی سدھ بدھ گنوائےان پراسرار کہانیوں کی تلاش میں چلتا رہتا ہے، جن کے رنگ بنفشئی ، کالے، نیلے اور پیلے ہیں، قوس قزح سے زیادہ رنگ رنگیلے اور لہو رنگ سے بھی زیادہ شوخے ہیں….مویشی، پرندے، جنگلی پھول، جڑی بوٹیاں، جنتر، تتلیاں، مور، گدھ، فاختائیں، کوے، شترمرغ، کوڑھ کرلیاں، تلور، بٹیر، تیتر، آندھیاں، بگولے، بارش، بیج، پتے، کیڑے مکوڑے، ٹلیاں بجاتے ریوڑ، کیکر کی انگارہ بھری لکڑیاں، حیاتیات و نباتات کا یہ رنگدار…. نشیلا پر بے مہرکھیل بنانے والے سامری جادوگر…. میٹھے رسیلے پھل، بولتے سانپ، آسمانوں تک سرکشیدہ غیرمرئی سنگی دیواریں…. آگ اگلتے سورج کی تپش سے جل بھن کر سوا ہوتے کیڑے مکوڑے، شیشم کے تن آور درخت، پیپل اور شہتوت کے جھنڈ، کھیت اور” نیلی بار “ کے پکھی واسی جو حقارت و دھتکار کے ذائقے کے ساتھ پیدا ہوئے اور اسی ذائقے کی ہمراہی میں موت کی آغوش میں چلے گئے….” نیلی بار “ میں طاہرہ نے ان کے دنیا میں موجود ہونے کے اقرار نامے پر دستخط کیے ہیں۔

تخلیقی رازوں کےامین نے اپنے تئیں ان مجبور و مہقور کہانیوں کے چہرے پر کالا نقاب چڑھا کے، ان کے ہاتھ پیر پیچھے باندھ ، گلے میں رسّہ ڈال کر…. جلاد کو رسّہ کھینچنے کا حکم دے دیا …. لیور اب گھوما کہ اب …. رسّہ اب کھنچا کہ اب…. کہانیاں دم سادھے کھڑی ہیں، مردود لمحہ آکے نہیں دیتا اور جاں گسل لمحے گزرتے جاتے ہیں….شاید ان لمحوں کا حساب رکھنے کے لیے قدرت نے طاہرہ کو قلم تھمایا ہےکہ وہ زندگی و موت کے درمیان کے اس تنے ہوئے، لمحہ لمحہ سنگین ہوتے، جان لیوا قاتل لمحات کو امر کر دے ۔زندگی اور موت کے درمیان کا پلک جھپکنے جتنا فاصلہ…. طاہرہ کا قلم اس لمحۂ بے حال و بدحال کو رقصاں کرتا…. جیون کے دھمال کو موت کے زہر سے سیاہ کرتا… زندگی کے نام پر دی گئی گالی، تہمت اورالزام کو بھنبھوڑنے لگتا ہے۔ اک لمحہ کو تو یوں لگتا ہے کہ گویا، طاہرہ ان زندگیوں کے تماشہ گر کو چیلنج کر رہی ہے ” یہ جو تو دنیا کی بھٹی دہکائے بیٹھا ہے، چمٹیوں سے پکڑ پکڑ کر…. انسانی وضع قطع کے سالمے زمین پر پھینکے جارہا ہے، تو بھیج اس تماشہ گاہ میں یہ پتلیاں اور چلا اپنی شاطر انگلیوں سے، ان دیکھے دھاگوں میں بندھی تیلیاں… دکھا ان کے بخت کے کوجھے رنگ…. اور کرنے دے مجھے ان زندگیوں کی نقش کاری …. بالکل ایسے جیسے تو نے ان کو لکھا اور جیسے ان پُتلیوں نے ان کو جیا…“

مگر یہ نقش کاری کرتے ہوئے، طاہرہ وہاں جاکر قاری کو مارتی ہے، جہاں دھرتی کا کوئی سرا تک نظر نہیں آتا۔ پانی کے تیز بہاؤ میں کسی بدنصیب کشتی کا کوئی ٹوٹا ہوا تختہ، کوئی تصوراتی کنارہ…. کوئی مضبوط جڑوں والا پودا…. کچھ بھی آسرا نہیں بنتا…. کتنے ہی، میرے جیسے، لفظوں کی بارہ دری میں ٹامک ٹوئیاں مارتے قاری…. ان لنگڑی، لولی، اندھی، بے بس، قیدی کہانیوں کا انجام سننے کے لیے سانس روکے لفظوں کو پھلورتے چلے جاتے ہیں مگر…. ہمیں آکسیجن اسی جواب سے ملنی تھی، جس جواب کا…. کہانی بننے والے کو بھی پتہ نہیں…. بے رحم خالق!!

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2