ایک تھا کشور کمار


 

وہ ایکٹر بھی تھا، وہ رائیٹر بھی تھا، وہ گلوکار بھی تھا، وہ میوزیشن بھی تھا، وہ ایک باکمال اور عجیب و غریب انسان تھا، بچپن سے لے کر آج تک ایک ہی بات سنتا آیا ہوں کہ کشور کمار کشورکمار تھا۔ او ساتھی رے تیرے بنا کیا جینا، میرے سپنوں کی رانی، یہ نغمے آج بھی چوکوں چوراہوں پر بج رہے ہوتے ہیں۔ کشور کمار کے گیت بوڑھا ہونے کی بجائے روز بروز جوان ہورہے ہیں، ہر جنریشن ان کی مداح رہی۔

یہ اس زمین کا وہ فنکار ہے جس کے گیت ہمیشہ ہمیشہ دلوں میں خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیرتے رہیں گے۔ دور بدل جاتا ہے، نئے فنکار آجاتے ہیں، لیکن کشور کمار کے گانے آج بھی اسی سج دھج سے بج رہے ہوتے ہیں۔ جو انفرادیت کشورکمار میں تھی، وہ آج تک کسی میں نہیں آسکی۔ کورا کاغذ من میرا لکھ دیا نام اس پہ تیرا، کیا یہ نغمہ کسی بھی دور میں بھولنے والاہے۔

کشور کمار انیس سو انیتیس میں مدھیا پردیش کے ایک چھوٹے سے شہر کھنڈوا کے ایک چھوٹے سے بازار کے ایک چھوٹے سے گھر میں پیدا ہوئے۔ اس چھوٹے سے گھر میں پیدا ہونے والے بچے کی آواز آج بھی ساری دنیا میں گونجتی نظر آرہی ہے۔ کشور کوئی تربیت یافتہ سنگر نہیں تھے۔ بنگالی گھر میں پیدا ہونے والے کشور کمار نے کبھی تربیت یافتہ گائیک بننے کی بھی کوشش نہیں کی۔ لیکن آج بھارت میں کشور کمار ایوارڈ ان سنگرز کو دیا جاتا ہے جو بہت ا اچھی گائیکی کررہے ہوتے ہیں۔

باپ وکیل تھا، بچپن ہی سے ٹیلنٹد تھے، لوگوں کی نقلیں اتارتے رہتے تھے۔ کے ایل سہگل کے نغمے کشور کمار کو پسند تھے۔ وہ ہمیشہ کے ایل سہگل کے گانے گاتے رہتے تھے۔ کشور کمار کا اصل نام اباھاس گنگولی تھا۔ کہا جاتا ہے بچپن میں کشور کمار کی آواز بہت بری تھی، ایک بار ایسے ہوا کہ ان کے پاؤں میں گہری چوٹ لگ گئی، وہ تین دن تک بستر پر روتے رہے، ان تین دنوں میں ایسے روئے کہ محلے والے ان کے رونے سے تنگ آگئے تھے۔ پھر عجب ہوا کہ اس رونے دھونے کی وجہ سے ان کا گلا کھل گیا اور آواز میں وہ سر آگئے کہ سب ان کے دیوانے ہوگئے۔ تین دن کے رونے کا یہ ثمر ملا کہ آج برسوں سالوں بعد بھی ان کی آواز کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔

آج کے نوجوان شاید محمد رفیع کو نہ جانتے ہوں، لیکن انہیں کشور کمار کے بارے میں یہ علم ہے کہ وہ چلتے چلتے جب ان کی آواز میں کوئی گانا سنتے ہیں تو کہتے ہیں یہ کشور کمار گارہے ہیں۔ یہ ہے وہ انفرادیت جو کسی اور فنکار کے حصے میں نہیں آئی۔ کہتے ہیں جب وہ ممبئی فلم انڈسٹری میں آئے تو کنٹین پر بیٹھے رہتے تھے، کنٹین پر برتنوں کے ساتھ موسیقی بجاکر لوگوں کو خوش کرتے رہتے تھے۔ فلم انڈسٹری کے لوگ کشور کمار کو پاگل اور دیوانہ کہتے تھے۔ اس وقت انہیں ایک بیکار اور نکما شخص کہا جانے لگا۔ شروع شروع میں انہیں کورس میں کھڑا کردیا جاتا تھا۔

ڈائریکٹرز  اور پروڈیوسرز کشور کمار کو بے عزت کردیتے تھے۔ کہتے تھے اپنی شکل و صورت آئینے میں دیکھو، یہ شکل و صورت کیا فلموں میں کام کرنے کے لائق ہے۔ فلم انڈسٹری میں کشور ہی وہ انسان تھے جنہیں شروع میں سب سے زیادہ ذلیل کیا گیا۔ اس ذلت کو کشور نے ہمیشہ یاد رکھا۔ یہ تلخی ہمیشہ ان کے ذہن و روح میں تھی کہ کچھ انسانوں نے ان کا دل توڑا۔

شروع شروع میں انہیں کامیابی نہ مل سکی، انیس سو انچاس میں ایک فلم بنی تھی، جس کا نام ضدی تھا، اس کا ایک گانا کشور کمار نے گایا تھا، یہ گانا دیوآنند پر پکچرائز ہوا تھا۔ یہ گانا تھا مرنے کی دعائیں کیا مانگوں۔ یہ گانا پسند کیا گیا۔ اس کے بعد انیس سو اکاون میں ایک فلم بنی جس کا نام اندھولن تھا، اس میں کشور کمار نے بطور ہیرو کام کیا۔ فلم کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔ انیس سو چوون میں ایک فلم بنی تھی نوکری، بیمل رائے اس کے پروڈیوسر تھے ْ۔ اس میں کشور کمار نے لاجواب گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ یہ فلم اس زمانے کی بڑی ہٹ فلم تھی۔

کشور کمار ہمیشہ اپنے لئے یا دیوآنند کے لئے گانے گاتے تھے، وہ کسی تیسرے ہیرو کے لئے گانانہیں گاتے تھے۔ اب ہندی سینما میں بطور ہیرو بھی وہ کامیابیاں سمیٹ رہے تھے اور ساتھ ساتھ بطور سنگر میں ان کا نام بلند ہورہا تھا۔ اسی زمانے میں دو فلمیں بنی تھی، ایک کا نام آشا تھا اور دوسری کا نام نئی دہلی۔ ان دونوں فلموں میں کشور نے کام بھی کیا اور ان فلموں کے پلے بیک سنگر بھی وہ خود ہی تھے۔ اسی زمانے میں معروف میوزیشن ایس ڈی برمن نے کشور کو مشورہ دیا کہ وہ سہگل کے سحر سے نکلے، اپنی خود کی آواز تلاش کرے۔ کشور نے ایس ڈی برمن کی نصیحت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گلے لگالیا۔

کشور نے بطور پروڈیوسر ایک فلم بنائی جس کا نام تھا چلتی کا نام گاڑی، مدھوبالا جی اس فلم میں کشور کمار کی ہیروئن تھی۔ انیس سو پچاس میں کشور کمار کی شادی ہوئی، جو انیس سو اٹھاون میں ٹوٹ گئی۔ کشور کمار کا ایک بیٹا بھی ہے جو بالی وڈ فلم انڈسٹری میں بطور گائیک بہت مشہور ہے۔ کشور کمار آگے بڑھتے چلے جارہے تھے، ان کی فلمیں ہٹ ہورہی تھی، ان کی گائیکی کےبھی خوب چرچے تھے۔ کشور کمار پاگل پن اور دیوانگی میں بہت مشہور تھے، انہوں نے زندگی بھر ان پروڈیوسرز اور میوزک ڈائیریکٹرز کے ساتھ کام نہ کیا، جنہوں نے شروع شروع کے دنوں میں ان کا دل توڑا تھا۔ وہ ہمیشہ ہر موقع پر ان پروڈیوسروں کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیتے تھے۔

کشور کمار کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تنہا اور افسردہ انسان تھا، لیکن ہمیشہ کشور کمار کا چہرہ مسکراتا نظر آتا تھا۔ اس نے ہمیشہ اپنے چہرے پر ماسک چڑھائے رکھا۔ حقیقت میں وہ اداس، افسردہ اور سوچنے والا انسان تھا۔ وہ ایک بیقراردل کے ساتھ آگے بڑھتے گئے، مستیاں کی، کامیڈی کی، لوگوں کی نقلیں کی، لیکن ہمیشہ تنہا رہے۔ گاتا رہے میرا دل، میرے محبوب قیامت ہوگی، آج رسوا تیری گلیوں میں محبت ہوگی، کشور کے یہ نغمے ہمیشہ ذہن و روح میں تازگی پیدا کر دیتے ہیں، ہمیشہ رات کے تین بجے کے بعد کشور کمار کے گانے سنتا ہوں۔ اس کے بعد ایک عجیب سا ماحول بن جاتا ہے، جسے میں خوب انجوائے کرتا ہوں۔ میری تو اس کہانی کو پڑھنے والوں سے یہی اپیل ہے کہ اگر انہوں نے زندگی کا لطف لینا ہے تو وہ کشورکمار کے نغمے ہر روز سن لیا کریں۔ اس سے شخصیت میں مثبت اور تخلیقی تبدیلیاں آتی ہیں۔ ایک بات جس پر میرا مکمل ایمان ہے وہ یہ کہ واقعی موسیقی روح کی غذا ہے۔ چلیں چھوڑیں، آگے بڑھتے ہیں، کشور کمار کی زندگی کے آخری دور کی بات کرتے ہیں۔

ایک زمانہ ایسا آیا کہ ان کی بہت ساری فلمیں ناکام ہو گئیں، وہ بالی وڈ کی چمکتی دمکتی دنیا کے منظر سے اچانک غائب ہو گئے۔ مالی حالات بھی بدترین ہو گئے۔ فلم ڈائریکٹرز اب بھی ان سے گانے اس لئے نہیں گواتے تھے کہ وہ ایک تربیت یافتہ سنگر نہیں تھے۔ میوزک ڈائریکٹرز کو بھی ان کے گانوں پر کچھ حد تک بھروسہ نہیں تھا، بطور ہیرو وہ فلموں میں ناکام ہو ئے، ان کی بہت ساری فلمیں بری طرح ناکام ہو گئی۔ ہم متوالے نوجوان، عجب ہے داستاں تیری آئے زندگی، کبھی ہنسا دیا، کبھی رلا دیا، اس طرح کے نغمے گانے والے کشور کمار اب پریشانی میں تھے۔ روزی روٹی کے لئے اب اسٹیج پر پروگرام کرنے لگے۔ اب وہ اسٹیج پر گاتے تھے، اس سے جو پیسہ ملتا تھا، اس سے زندگی کی گاڑی کو چلا رہے تھے۔

اسی دوران انیس سو انسٹھ میں ایک فلم بنی، جس کا نام تھا، ارادھنا، برمن دادا اس فلم کے میوزک ڈائریکٹر تھے، راجیش کھنہ اس فلم کے ہیرو تھے، اس فلم نے آگ لگا دی، یہ اس وقت کی سپر ہٹ فلم تھی۔ اس فلم کے نغمے کشور کمار نے گائے تھے۔ میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی توں، یہ میرا فیورٹ سانگ ہے، یہ گانا بھی اسی فل کا ہے۔ کشور کمار اس کے بعد پھیلتے چلے گئے۔ اس وقت نوے فیصد فلموں کے نغمے رفیع صاحب گایا کرتے تھے، باقی دس فیصد دوسرے سنگر، لیکن اس فلم کے بعد کشور کمار بطور سنگر ایسے ہٹ ہوئے کہ اب نوے فیصد نغمے کشور کمار گارہے تھے۔ اس زمانے میں لوگوں نے کشور کو رفیع سے بڑا سنگر قراردیا۔ لیکن کشور کمار نے ایک میگزین میں خط لکھا کہ ان کا مقابلہ محمد رفیع سے نہ کیا جائے، محمد رفیع اس دنیا کے بڑے سنگر ہیں، رفیع کے مقابلے میں وہ کچھ بھی نہیں، اس لئے رفیع سے مقابلہ کرکے انہیں شرمندہ نہ کیا جائے۔ کشور کمار کے اس عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ بڑے سنگر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے انسان بھی تھے۔

کشورکی آواز میں جو شرارت، تیزی، تیکھا اور میٹھا پن تھا، اس کا کوئی جواب نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کشور کی گائیکی میں گہرائی اور احساس جیسے عناصر بھی ہیں۔ جیسے پل پل دل کے پاس تم رہتی ہو، میرا من پیاسا، یہ نغمے کمال ہیں۔ ہمیں تم سے پیار کتنا، یہ ہم نہیں جانتے۔ تم بن جاوں کہاں، ان نغموں کو سن کر روحانی تازگی ملتی ہے۔ پھر یوں ہوا کہ انیس سو ستاسی میں انتقال کر گئے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں، بڑے فنکار آئیں گے، کمال کردیں گے، لیکن کشور جیسا فنکار دوبارہ اس دنیا کو نصیب نہیں ہو سکے گا، لیکن ہم اس حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ ان کے نغمے ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے، ان نغموں کی مٹھاس ہمیشہ ہمارے کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).