سوشل میڈیا پر ایک اور کتاب کا واویلا


ہمارے ہاں کتاب پڑھنے کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کسی اور کو تو کیا کہیں ہم خود بھی کتب بینی کے زیادہ قریب نہیں۔
حالانکہ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ چھپ چھپ کر امی کے ڈائجسٹ پڑھا کرتے تھے۔ جیسے ہی وہ سوتی تھیں دبے پاؤں ان کے کمرے میں داخل ہوئے، رسالہ دبوچا اور الٹے پیر واپس پو لئے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ سلسلہ وار ناول امی سے زیادہ ہم جانتے تھے اور جب وہ کسی سہیلی سے شہر ذات کا ذکر کرتیں تو ہم بمشکل خود کو کہانی پر تبصرے سے روکتے۔ جیسے جیسے بڑے ہوئے مزید لکھاریوں کو پڑھنا شروع کیا۔ جماعت ہفتم میں لائبریری کا اعزاز پایا کہ یہ بچی یہاں موجود تمام کتابیں دو دو بار پڑھ چکی ہے۔

جی ہمارا پڑھنے میں کوئی خاص ذوق تو تھا نہیں۔ بس کتاب ہو۔ نرسری جماعت کے بچوں کی کہانیاں بھی ہماری پہنچ سے دور نہ تھیں۔ غالبا یہ اسی کتب بینی کا اعجاز ہے کہ آج کچھ لفظ جوڑ کر آپ کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔

خیر یہ قصے تو اب تاریخ ہوئے۔ اب تو سب کچھ ایک کلک پر موجود ہے۔ وقت گزاری کے بھی بہت شغل ہیں۔ خدا موبائل فونوں کا اقبال بلند کرے۔ اب کوئی کتاب کیوں پڑھنے لگا؟ ہم جیسے سابقہ کتابی کیڑے کتاب سے دور جا چکے ہیں تو نئی نسل کے بارے میں آپ قیاس کر ہی سکتے ہیں۔ سب کچھ فون میں موجود ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے کتاب پکڑنا یوں بھی دقیانوسی بات ہے۔ پیپر لیس دور ہے۔

اس سب کے باوجود جو بات ہمیں سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ آج بھی کتاب خطرے کی علامت کیوں ہے۔ جو قوم طالبان کے حملوں کو مشیت ایزدی جانے وہ کتاب سے کیوں خوفزدہ ہے۔ ہر طرف کتاب نے ہی تماشا برپا کیا ہوا ہے۔ ملالہ کی کتاب آئی تو جگہ جگہ شور مچ گیا۔ حسین حقانی کی کتاب تو یوں بھی ملکی سلامتی کے لئے اہم خطرہ ہے۔ ابھی کل ہی ہمارے ایک سینئر کولیگ جو بڑے ممتاز دانشور ہیں بتا رہے تھے کہ ان کو ایک دن کسٹم والوں نے بلا بھیجا۔ پتہ چلا کہ جو کتابیں انہوں نے لندن سے منگوائی تھیں انہوں نے سیکورٹی کو چوکنا کر دیا تھا۔ یہ صاحب علم و ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں قوی یقین ہے کہ انہیں بم بنانے سے بالکل کوئی دلچسپی نہیں لیکن سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو گا۔

آج کل سوشل میڈیا پر ایک اور کتاب کا واویلا مچا ہوا ہے۔ دونوں طرف سے ہر قسم کے الزامات کا تابڑ  توڑ حملہ ہو رہا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ کتاب چھپی بھی نہیں۔ قانونی نوٹسوں کی جو گولہ باری ہو رہی ہے وہ اس مفروضے پر ہے کہ ایک صاحب نے ”مصدقہ ذرائع“ سے اس کتاب کا مسودہ حاصل کر لیا ہے۔ ان سے ان کا سورس پوچھا جائے تو آئیں بائیں شائیں شروع ہو جاتے ہیں لیکن باقی سب کو ٹرک کی بتی کے پیچھے بخوبی لگا رکھا ہے۔ کتاب کی لکھاری جنہوں نے یہ کتاب بظاہر اپنے سابقہ شوہر کے بارے میں لکھی ہے مزے سے تماشا دیکھ رہی ہیں اور کتاب کی مفت پبلسٹی بٹور رہی ہیں۔ جس بچے کا ڈھنڈورا پورے شہر میں ہے وہ تو بغل میں بھی نہیں۔

بیٹھے تو ہم بھی پاپ کارن لئے ہیں۔ ایک تو یہ کوئی عصمت چغتائی کے افسانے نہیں کہ ہم بے صبری سے انتظار کریں۔ ایک سابقہ اہلیہ کی اپنے مشہور خاوند ہر بوچھاڑ ہے۔ وہ باتیں جو رشتے داروں میں چہ مگوئیاں کی جاتی ہیں انہوں نے کتاب میں لکھ دیں ( عام خیال یہی ہے)۔ دوسری بات یہ کہ اگر چھپ بھی جائے تو بھیا کتاب ہی ہے نہ۔ کون پڑھنے کے لئے بیٹھا ہے؟ ہاں آپ کے تماشے نے اسے ضرور زیب داستاں کی خاطر بلاوجہ بڑھا دیا ہے۔

یوں تو شاید کوئی یہ کتاب نہ پڑھتا لیکن اب یہ ضرور بکے گی۔ اور دھڑا دھڑ بکے گی۔ خاتون لکھاری سے التماس ہے کہ رائلٹی میں ان سب کا حصہ بھی رکھا جائے۔ آپ کو پبلسٹی ٹیم ہائر  نہ کرنی پڑی۔ ورنہ کون بیٹھا تھا یہ کتاب پڑھنے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).